حکومت مہنگائی کا خاتمہ پہلی ترجیح قراردے

وزیر اعظم عمران کے واضح اعلانات کے باوجود مہنگائی کا گراف نیچے نہیں آرہا۔اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ حکومت نے ابھی تک اسے سنجیدگی سے اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔آٹے چینی کی قیمتوں میں اضافے کو ایک لمحے کو بھول جائیں، صرف اس تکلیف دہ حقیقت پر غور کرلیا جائے کہ ٹماٹر، ہری مرچ، دھنیا،پودینہ،آلو، پیاز وغیرہ کی قیمتیں اتنی زیادہ کیوں ہیں؟ چین کا نظام لانے کا خواب دیکھنے کی بجائے ان سے صرف یہ پوچھا جائے کہ وہ اپنے عوام کو(دنیا کی سب سے بڑی آبادی ہیں) سبزی اور پھل کس قیمت پر فراہم کرتے ہیں؟ ایک دفعہ اپنے وزیر خوراک کو یہ ٹاسک دے کر چین بھیجیں کہ وہ چین میں فوڈ سپلائی کا نظام اچھی طرح گھوم پھر کر دیکھیں، فلیٹوں کے قریب لگے ہوئے کثیر تعداد میں پھل دار درخت اور ان کے نیچے اگی ہوئی سبزیاں قریب جا کر دیکھیں۔ چینی زبان جاننے والے ایک مترجم کی خدمات حاصل کر لیں۔جو لوگ ان باغات میں کام کر رہی ہوں ان سے بالمشافہ ملاقات کریں اور پوچھیں کہ پھلوں اور سبزیوں کو کہاں لے جا کر فروخت کرتے ہیں؟ انہیں بتایا جائے گا یہ پھل اور سبزیاں ان فلیٹوں میں رہائش پذیر خاندانوں کو ان کی ضرورت کے مطابق مفت فراہم کرتے ہیں، بچ جانے والے پھل اور سبزیاں مارکیٹ میں فروخت کر دی جاتی ہیں۔ اس سے جو آمدنی ہوتی ہے، ان باغات میں کام کرنے والوں کی تنخواہ اور دیگر اخراجات اس سے پورے ہو جاتے ہیں۔گویا سارے کام میں سرکاری خزانے پر ایک دھیلے کا بوجھ نہیں پڑتا۔ہمارے ملک میں جہاں فلیٹوں کے گرد و نواح میں زمین دستیاب ہو اسی منصوبے کو عمل جامہ پہنایا جائے۔نہ فارم ٹو مارکیٹ سڑک تعمیر کرنے کی ضرورت ہے، نہ ہی آمد ورفت کے اخراجات درکار ہوں گے، جبکہ اسٹاف کی تنخواہیں بھی وہیں سے خود بخود جینریٹ generateہوں گی۔ چین طویل عرصے سے یہ کام کامیابی سے کر رہا ہے۔ہم کیوں نہیں کرسکتے؟بجلی پانی اور گیس پہلے سے فلیٹوں میں موجود ہے۔پاکستان میں نیشنل ہائی ویز اورسپر ہائی ویز کے دونوں طرف قطعہ اراضی لازماً خالی چھوڑے جاتے ہیں۔اگریہ بیکار پڑی ہوئی سرکاری زمین قرب و جوار کے رہائشیوں کو ان ہی شرائط پر دے جائے کہ وہاں کے رہائشی ہر موسم کے مطابق سبزیاں اگائیں اور پھل دار درخت اتنی تعداد میں اگائیں کہ مقامی مکینوں کو مفت فراہم کرنے کے بعد جو بچ جائیں انہیں قریبی منڈی میں بیچ کر اپنی تنخواہیں اور دیگر اخراجات پورے کر لیں۔تو بہت کم عرصے میں سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں نیچے آ جائیں گی۔ بشرطیکہ یہ کام خلوص سے اور میرٹ پر کیا جائے۔ پی ٹی آئی کے پاس اقتدار کے ابھی ڈھائی سال پڑے ہیں اس منصوبے پر عمل کیا جا سکتا ہے۔اس کے ساتھ مرغ بانی اور کیٹل فارمنگ کی جا سکتی ہے۔عوام پراعتماد کیا جائے،عوام ملک کو ترقی کی بلندیوں تک لے جائیں گے۔کاشتکاری اور فارمنگ میں سب سے مہنگی چیز زمین ہے،عام آدمی کے بس سے باہر ہے۔عام آدمی ہنر مند ہے، کاشتکاری کے شعبے میں ہمارے ملک میں افرادی قوت کی کمی نہیں،مگر ان سے کام لینے کی کبھی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔دیہی آبادی کوگھر کے قریب ہی روزگار مل جائے گا۔آسان قرضہ اسکیم پہلے سے موجود ہے۔ غریبوں میں نادہندگی کی شرح بہت کم ہوتی ہے۔بعض فلاحی تنظیمیں ضرورت مندوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے بلاسود قرض دیتی ہیں۔انہوں نے اپنے اوور ہیڈ اخراجات کم ترین سطح پر رکھے ہوئے ہیں۔محلے یاگاؤں کی مسجد میں بیٹھ کر کام کرلیتے ہیں۔آج کال لیپ ٹاپ اور واٹس ایپ نے آن لائن کاروبار میں بھی بہت آسانی پیداکر دی ہے۔اس میں شک نہیں کہ ماضی میں کرپشن کی دانستہ سرپرستی کی گئی، پی آئی اے جیسے باوقار ادارے سے جعلی ڈگری والوں برطرف کرنے کاسلسلہ تاحال جاری ہے۔لیکن ابھی کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوا۔وزیراعظم عمران خان خود بھی اعتراف کرتے ہیں کہ نچلی سطح پر یہ آج بھی جاری ہے۔ اس کی مثال ٹریفک پولیس ہے،تھانے ہیں۔یاد رہے اگر اوپر والوں کی آنکھیں کھلی ہوں، ضمیرجاگ رہاہو انہیں قانون کا ڈر ہوتو نچلی سطح پر کرپشن روکی جا سکتی ہے۔مسئل چین میں بھی تھے۔انہیں سامراجی دور میں بڑی تعداد میں افیون کے نشے کا عادی بنایا ہوا تھا،جیسے آج پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر اور دیہاتوں میں لوگ کھلے عام ہیروئین، شیشہ اور دیگر منشیات استعمال کرتے نظر آتے ہیں، یونیورسٹیاں بھی اس سماجی خرابی سے محفوظ نہیں۔کیا پولیس اندھی ہے کہ اسے نشئی افراد کے جھنڈ سڑک کے کنارے بیٹھے ہوئے بالکل دکھائی نہیں دیتے۔انہیں آنکھیں بند رکھنے کا معقول حصہ باقاعدگی سے ملتا ہے۔دو نمبر کام کے مراکز تک اگر نجی چینل کے باہمت کارکن کیمرے سمیت پہنچ جاتے ہیں تو یہ بات کیسے مانی جا سکتی ہے کہ علاقے کی پولیس یا ایجنسیاں اس کالے دھندے سے بے خبر ہیں۔لیکن جب تک کابینہ میں مافیاز کے سرپرست اور ایجنٹ موجود ہیں یہ مناظر دیکھنے کو ملتے رہیں گے۔جس حکومت کی اولین ترجیح جرائم کا خاتمہ ہو وہ پہلے روز اس کا قلع قمع کرتی نظر آتی ہے۔یہاں ایسا نہیں ہوا،کرپٹ بیوروکریسی کو یقین دلایا گیا بے فکر ہوجاؤ، کچھ نہیں کہا جائے گا۔ یہ نہیں سوچا گیا کہ شریف افسر تو پہلے ہی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرتا ہے۔ کاش پی ٹی آئی کی قیادت 22سالہ جدوجہد کے دوران اس ضمن میں مناسب سوچ بچار کر لیتی۔ اہل، مخلص اور دیانت دار ممبران اور کارکنوں کی ایک فہرست اس کے پاس موجود ہوتی اقتدار ملتے ہی انہیں کام سونپ دیا جاتا، آج حکومت کو تبدیلی کے نام پرطعنے نہ دیئے جا رہے ہوتے ملک میں تبدیلی آچکی ہوتی۔ لاکھوں افراد کو روزگارمل چکا ہوتا۔ چلیں برائے بحث مان لیتے ہیں ملک کی مالی حیثیت پریشان کن تھی، مشکل وقت تھا گزر گیا،اب تو یہ کام کیاجا سکتا ہے۔کر لیا جائے۔ حکومت کی ساکھ بن سکتی ہے، عوام کو سکون مل سکتا ہے،وقت کم ہے،مگر سچ یہ ہے کہ سنجیدگی کا فقدان ہے،ورنہ ہنر مندوں اور اپنی مدد آپ کی بنیادوں پر کام کرنے والوں کی کمی نہیں۔ابتداء میں سرکاری معاونت کی ضرورت ہے، زرعی شعبہ بہت جلد اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتاہے۔سبزیاں اور پھل سستے داموں مارکیٹ تک پہنچ سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں