سنجیدہ سیاست کب اپنائی جائے گی؟
پاکستان کو صرف ایک بنیادی مسئلہ روزاول سے لاحق ہے۔ آئین سازی میں 9سال لگادیئے۔اس دوران بیوروکریسی(سول اور ملٹری دونوں) مضبوط اور سیاستدان کمزور ہو چکے تھے۔ اس کے نتیجے میں وہی کچھ ہونا تھا جو تجربہ کار ناخداکی عدم موجودگی میں کشتی کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ملک مکمل تباہی سے توبچ گیا مگر 25برس میں اپنے مشرقی بازو سے محروم ہونا پڑا۔لیکن ملک ٹوٹنے سے پاکستان کی بیوروکریسی کو اپنی پالیسی پر غور کرنے کا موقعہ مل گیا،عالمی سطح پر یکطرفہ دوستی کے نقصانات سامنے آگئے۔ایک دور افتادہ ملک کی دوستی نبھانے اورپاکستان کے تما م ہمسایوں سے بگاڑ پیدا کرنے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ پہلے ملک دولخت ہوا،پھر ہمسایوں کے دلوں سے پرانی رنجشیں اورعدم اعتماد دور کرنے کا مرحلہ درپیش رہا۔ابھی داخلی اور خارجہ محاذ پرپیچیدگیاں دور نہیں ہو سکی تھیں کہ امریکہ نے اپنے نیٹواتحادیوں کے ساتھ عرب ممالک کو تہس نہس کرنے کے بعد اسامہ بن لادن کی تلاش کے بہانے افغانستان پر چڑھائی کر دی اور ٹیلی فون کال کے ذریعے پاکستانی حکمرانوں سے پوچھا:”تم ہمارے ساتھ ہو دشمن کے ساتھ؟“، سیاستدان ان دنوں پابجولاں تھے یاجلاوطنی کی مشکلات سے دوچار تھے۔اس لئے بیوروکریسی نے اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔یہ فیصلہ اپنے ساتھ دہشت گردی کا سیلاب لایا۔مارکیٹ،اسکول، مساجد، اور چرچ سمیت بھی محفوظ نہیں رہا۔ملکی معیشت قرضوں میں جکڑ ی گئی۔جن ممالک کو دوست سمجھ کر قرض لیا وہ بھی ہمارے آقا بن گئے۔ حکم دیا فلاں ملک نہیں جانا، گئے تو براسلوک کیا جائے گا۔ ابھی قرضوں سے جان نہیں چھوٹی۔
یادرہے یہ ملک سب کا ہے۔سب کا جینا مرنا اسی دھرتی سے جڑا ہوا ہے۔22کروڑ عوام کہیں جانا چاہیں تب بھی کوئی ملک قبول نہیں کرے گا۔کچھ لوگ چند ماہ پہلے خوشیوں کی تلاش میں ہمسایہ ملک گئے تھے،دکھ جھیلنے والوں میں سے بعض نے خودکشی کی یا قتل ہوئے؟یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا، زندہ بچ جانے والے،بمشکل واپس پاکستان پہنچے ہیں۔ اپنے دیس کی مٹی جیسی محبت کہیں نصیب نہیں ہوا کرتی۔حکمران ہوں یا اپوزیشن سب پاکستانی ہیں۔حکومت اوراقتدار آنی جانی شے ہے، کسی کے پاس مستقل نہیں رہتا۔جن کے پاس کل تھا، آج نہیں ہے۔سدا بادشاہت(حکمرانی)صرف اَللہ کے پاس ہے۔باقی سب فانی ہیں۔ساری دنیا فتح کرنے نکلنے والا سکندرِ اعظم بلوچستان عبور نہیں کر سکا، مچھروں سے ہار گیا تھا۔ جاپان سمیت سارے عرب ممالک کو تبا ہ و برباد کرنے والا امریکہ اپنے ڈھائی لاکھ شہریوں کو مچھر سے بھی چھوٹی شے ”کوروناوائرس“سے نہیں بچا سکا۔کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ وہ اپنے مخالفین کو خاک چٹائے گا مگر خودبچ جائے گا۔اپوزیشن ہو یا حکمران ہوں، دونوں کو یاد رہے:”غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے“۔گیٹ نمبر چار سے مانگی تانگی نام نہادعزت اور جاہ و جلال سے بہتر ہے کہ عام آدمی جیسی باوقار زندگی گزاری جائے۔آخر ایک دن حکمرانی کی شرط پوری کرتے ہوئے عام آدمی سے ووٹ مانگنا اور ووٹرز کے دروازے پر حاضر ہونا ہے۔اقتدار حاصل کرنے کے دیگر تمام راستے گمراہی کی طرف جاتے ہیں۔جو لوگ یہ حقیقت بھول جاتے ہیں، رسوائی ان کا مقدر بنتی ہے۔دکھ کی بات یہ ہے کہ ابھی بھی بعض سیاست دان یہ دعوی کر رہے ہیں کہ ان کے ارد گرد لوگوں سے اسٹیبلشمنٹ مذاکرات کررہی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ خفیہ مذاکرات کیو ں کئے جا رہے ہیں؟نون لیگ کے تاحیات رہبر نے پابندی لگائی تھی کہ ان کی پارٹی کا کوئی رہنما چھپ کر اسٹیبلشمنٹ سے ملاقات نہیں کرے گا،اس کے بعد یہ سلسلہ بند کیوں نہیں ہوا؟
پاکستان ایک خطرناک اور حساس خطے میں واقع ہے۔مشرقی ہمسائے نے اپنے اقدامات سے ثابت کردیا ہے کہ اس نے ریاست کے طور پرسیکولرازم ترک کرکے مذہبی شدت پسندی اختیار کر لی ہے۔ اس نے بد قسمتی سے چین سمیت اپنے کسی ہمسائے سے اچھے تعلقات نہیں رکھے۔افغانستان روسی افواج کو نکالنے کے بعدخانہ جنگی سے نبرد آزما ہوا، پھر مختصر مدت امن کے گزارے تھے کہ امریکہ نے نیٹو کے اشتراک سے اس پر حملہ کردیا، دو دہائیوں سے جنگ میں مصروف ہے،ایران بھی 1979 سے مسلسل امریکی عتاب کا شکار ہے۔لیکن ایران نے چار دہائیوں کے دوران انتہائی بہادری اور دانشمندی سے اپنی آزادی اور خود مختاری کی حفاظت کی، اپنے تیل کے ذخائر اور دیگر وسائل امریکی قبضے میں نہیں جانے دیئے۔ایران اور افغانستان کے بہادرعوام نے جانی و مالی قربانی دے کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ امید کی جا سکتی ہے امریکی پسپائی کے ساتھ ہی عوام دشمن استعماری سوچ کو فیصلہ کن شکست ہوگی اس خطے میں ترقی اور خوشحالی کا دور شروع ہوگا۔پاکستان کے سیاستدانوں کو اپنے فروعی اختلافات ختم کرکے وسیع تر عالمی تناظر میں ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔عام آدمی کو بیوقوف نہ سمجھا جائے عام آدمی نے دیکھ اور سمجھ لیا ہے کہ پی ڈی ایم سیاسی معاملات سے بے خبرایک ایسا ڈھیلا ڈھالا اتحاد اور پلیٹ فارم ہے جو گلگت بلتستان میں ایک دوسرے کے خلاف انتخابی جنگ لڑااور بری طرح ہارچکا ہے سربراہان ابھی اپنے جماعتی مفادات تلے دبے ہیں یہ کوئی مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔انہیں اتنی سوجھ بوجھ بھی نہیں کہ آپس میں لڑ کر انہوں نے پی ٹی آئی مخالف ووٹ تقسیم کردیئے اور اس کا فائدہ براہ راست پی ٹی آئی کو پہنچا۔بہتر لائحہئ عمل اختیار کیا جاتا تو نتائج مختلف ہوتے۔ درست حکمت عملی بنائی جاتی درست فیصلے کئے جاتے، یقیناپی ڈی ایم جیت سکتا تھا۔ اب سانپ نکل چکاہے، لکیر پیٹنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔اپنی توانائی ضائع نہ کی جائے،زمینی حقائق سے آنکھیں چرانے کا انجام شکست کے سوا کچھ نہیں ہوا کرتا۔گرے ہوئے دودھ پر رونا، چیخنا چلانا فضول ہے۔ بڑے مقصد کو سامنے رکھا جائے اسی کی جانب بڑھا جائے۔


