سینیٹ اور نیب آمنے سامنے
ڈپٹی چیئر مین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے میڈیا کے روبرو کہا ہے کہ نیب شریف لوگوں کو بدنام کر رہا ہے، ملک میں تجارت اور معیشت پر بھی نیب گردی کے منفی اثرات مرتب ہورہی ہیں۔نیب کو پوری دنیامیں بلیک لسٹ کراؤ ں گا۔اب سینیٹ آف پاکستان اور نیب کے درمیان مقابلہ ہوگا،نیب قوانین میں ترامیم لائیں گے جن پر حکومت اور اپوزیشن میں جلد اتفاق ہوگا۔آج تک نیب کا احتساب نہیں ہوا،نیب کی حراست میں لوگوں نے خودکشیاں کی ہیں اور اموات ہوئی ہیں،سلیم مانڈوی نے دعویٰ کیا ہے پلی بارگین کرنے والوں کی تفصیلات ان کے پاس موجود ہیں، لوگوں سے جبری وصولیاں کی گئی ہیں،سینیٹ میں پیش کی جائیں گی،نیب کے متأثرین اور تمام پلی بارگین والوں کو نیب میں بلائیں گے اور ان سے پوچھیں گے کہ انہیں کس طرح پلی بارگین پرمجبور کیاگیا۔ افسروں کی ڈگریوں کی چھان بین ہوگی،سینیٹ نیب افسران کے ذرائع آمدنی چیک کرے گا۔لوگ نیب پر ہنس رہے ہیں،نیب کی ساکھ متأثر ہو چکی ہے۔
قومی احتساب بیورو نے بھی فوری طو پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والاکی پریس کانفرنس کا جواب دیاہے۔ نیب نے کہاہے کہ ملزم کی پلی بارگین کی درخواست پر احتساب عدالت منظوری دیتی ہے، نیب نہیں۔ نیب کی تحویل میں ہونے والی ہلاکتوں کے حوالے سے تمام میڈیا رپورٹس کونیب نے مسترد کر دیاہے اور کہا ہے کہ جھوٹی خبریں چلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔انہیں قانونی نوٹسز جاری ہوں گے کہ14دن میں الزامات ثابت کریں بصورت دیگر ان کے خلاف باضابطہ کارروائی کا آغاز کر دیا جائے گانیب اعلامیہ کے مطابق ملزموں کی درخواست پر احتساب عدالت پلی بارگین کی منظوری دیتی ہے۔ملزن احتساب عدالت میں نا صرف اپنی غلطی کااعتراف کرتا ہے بلکہ احتساب عدالت میں خود بیان ریکارڈ کراتا ہے اور لوٹی گئی رقم کی پہلی قسط بھی جمع کراتا ہے۔ملزمان نیب کی طرف سے اکٹھے کئے گئے ٹھوس ثبوت اور شواہد کو دیکھ کر پلی بارگین کا راستہ رضاکارانہ طورپر اختیار کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ پلی بار گین کے ذریعے لوٹی گئی رقم وصول کرکے نیب قومی خزانے میں جمع کراتا ہے۔یہ کام قومی فرض سمجھ کر ادا کیا جا رہا ہے۔امریکہ،برطانیہ، آسٹریلیا اور بھارت جیسے ممالک میں پلی بارگین کی جاتی ہے۔پلی بارگین کے بعد ملزم 10سال کے لئے انتخابات میں حصہ لینے، شیڈول بینکوں سے قرضہ لینے کے لئے نا اہل ہوجاتا ہے اور اس کی کمپنی بلیک لسٹ ہو جاتی ہے۔اگر ملزم سرکاری ملازم ہے تو احتساب عدالت سے پلی بارگین کے بعد ملازمت سے سبکدوش کر دیا جاتا ہے۔بدعنوانی کے خاتمے کے لئے نیب کی کوششوں اور کارکردگی کو بین الاقوامی معتبر اداروں (ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل، عالمی اقتصادی فورم، پلڈاٹ اور مشال پاکستان) نے سراہا ہے۔نیب انسداد بدعنوانی کاواحد ادارہ ہے جس نے اپنے قیام سے اب تک بدعنوان عناصر سے 466ارب روپے وصول کئے اور قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں۔نیب مقدمات میں سزاکی شرح 68.8فیصد ہے۔یہ پاکستان کے دیگر انسداد بد عنوانی کے اداروں سے کہیں بہتر ہے۔
نیب اور سینیٹ کے درمیان ایک دوسرے کی اصلاح کے لئے سرگرم ہونا دراصل وہ نیشنل ڈائیلاگ ہے جوکسی منصوبہ بندی کے بغیرخود ہی شروع ہوگیاہے اورآنے والے دنوں میں اپنی سمت بھی متعین کرلے گا۔یہ عمل بہت پہلے ایک منظم انداز میں آگے بڑھایاجاتاتو ملک اور قوم کاقیمتی وقت ضائع ہونے سے بچ جاتا۔2010میں اٹھارویں ترمیم کے وقت نیب کا دائرہ کار اور اختیارات بارے اٹھائے جانے والے تمام سوال حل کئے جا سکتے تھے،کرلئے جاتے تو آج سینیٹ اور نیب کے درمیان تازہ کشیدگی دیکھنے کو نہ ملتی۔دیرسے سہی مگر یہ سوال ایوان بالا میں زیر بحث آنے کے امکانات پیداہو گئے ہیں۔ نیشنل ڈائیلاگ کے لئے ہر لحاظ سے مناسب ترین مقام پارلیمنٹ ہے۔ یہاں ملک کے بلاواسطہ اور بالواسطہ منتخب نمائندے قانون سازی کے فرائض ادا کرتے ہیں۔نیب اور سینیٹ (دو آئینی اداروں)کے درمیان اگر کوئی غلط فہمی یا ادارہ جاتی تناؤ پیداہو گیا ہے،اسے باہمی گفت و شنید اور دلائل سے دور کیاجا سکتاہے اورپارلیمنٹ کو ہی حل کرنا ہے۔جو سیاستدان پارلیمنٹ کو نظر انداز یا بائی پاس کرنا چاہیتے ہیں،وہ شاید جذبات سے اس حد تک مغلوب ہیں کہ عقلی فیصلہ کرنے کی بجائے پارلیمنٹ سے باہر اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کو ترجیح دینے لگے ہیں۔یہ طریقہ کار عام سوجھ بوجھ کامالک آدمی بھی درست نہیں سمجھتا۔سماج کے تمام حصوں کو، تمام پرتوں کو جان لیناچاہیئے 21ویں صدی بھی اپنے 20سال مکمل کر چکی ہے۔جدیدٹیکنالوجی نے ڈرائنگ رومز تک محدود سیاست کوخفیہ راز نہیں رہنے دیا،اگر کوئی رہنما اپنے نجی دوستوں میں بیٹھ کرکہتا ہے:”اگر میرے اثاثے، میرے ذرائع آمدنی سے زیادہ ہیں تو تمہیں کیا؟“، تویہ جملہ اوراس پر لگایا جانے والا قہقہہ پوری دنیامیں گونجتا ہے۔اگر بعض سیاست دان یہ سمجھتے ہیں کہ آئینی سوالات پر پارلیمنٹ میں بحث سے انکار اوراسٹیبلشمنٹ سے براہ راست مذاکرات کے معنے عام آدمی نہیں سمجھتا تووہ غلطی پرہیں، انہیں فکری اصلاح کی ضرورت ہے۔ ”اسٹیبلشمنٹ“ کی ذومعنی اصطلاح استعمال کرنے سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اس اصطلاح کے اصل کرداراس کے پیچھے چھپ جائیں گے،موجودہ حالات میں وہ خودبھی چھپنانہیں چاہتے، کہہ چکے ہیں:”قانونی معاملات عدالتوں اور سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں حل کئے جائیں“۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والانے سیاسی سوال پارلیمنٹ میں حل کرنے کے لئے پارلیمنٹ کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اب یہ بند نہیں ہوگا۔نازک بحث عام آدمی کے سامنے آگئی ہے،اپنے اختتام تک جاری رہے گی۔واضح رہے نیشنل ڈائیلاگ پارلیمنٹ سے باہرکی ضد کانقصان خود سیاست دانوں کو پہنچے گا۔ اس ضد سے جتنی جلدی ممکن ہوجان چھڑا لی جائے،اتنا ہی بہتر ہوگا۔پارلیمنٹ کی بالادستی برقرار رکھی جائے۔


