کابینہ میں تبدیلی

وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے 13دسمبر،مینار پاکستان،لاہور کے جلسہ سے دو روز قبل آئینی اور انتظامی ضروریات کے پیش نظر اپنی کابینہ میں تین وزارتیں تبدیل کر دیں اور مشیر خزانہ عبدالحفیظ وزیر خزانہ بنا دیاتاکہ وہ آئین کے مطابق کابینہ میں شرکت اور کسی کمیٹی کی سربراہی سنبھال سکیں، مشیر کی حیثیت سے یہ دونوں کام ان کے دائرہ اختیار سے باہر تھے،مگر انجام دے رہے تھے،عدالت نے ایک روز قبل مشیروں اور معاونین کو آئینی حدود سے تجاوز کی ممانعت کردی تھی۔شیخ رشیداحمد کو وزارت داخلہ سونپی گئی ہے،جبکہ وزارت ریلوے اعظم سواتی اور انسداد منشیات کا محکمہ اعجاز شاہ کے سپرد کردیا گیا ہے۔وزیر داخلہ کا منصب سنبھالتے ہی شیخ رشید احمد نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن کو جنوری /فروری میں اسلام آباد نہ آنے کا مشورہ دیا کہ ان دنوں شدید سردی ہوگی،انہوں نے پی ٹی آئی کے 126روزہ دھرنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بے نتیجہ رہا۔وزیر داخلہ نے سوال کیا اگر اپوزیشن وزیر اعظم عمران خان سے بات نہیں کرنا چاہتی تو کھل کر کہے کس سے بات کی جائے گی؟ اور کیامانگاجائے گا؟انہوں نے جدید مینجمنٹ بارڈر سسٹم لانے، غریبوں کو پاسپورٹ کی بہتر سہولت فراہم کرنے امیگریشن میں بعض اصلاحات لانے کا بھی ذکر کیا۔سابق وزیر داخلہ نسبتاً کم گو تھے جبکہ شیخ رشید احمد بسیار گو شخصیت ہیں۔انہیں اپنے طویل سیاسی دور میں 15وزارتیں سنبھالنے کااعزاز حاصل ہے جو شاید ہی کوئی توڑ سکے۔علاوہ ازیں وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ موجودہ دور مکمل ہونے کے بعد عملی سیاست سے ریٹائر ہو جائیں گے۔واضح رہے کہ انہوں نے زمانہ طالب علمی میں جیل کاٹی تھی۔
پی ڈی ایم کی حکومت گراؤ تحریک سے حکومت گھر جائے یا نہ جائے لیکن اتناتو دیکھا جاسکتا ہے کہ حکومت کو تمام شعبوں میں اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔اپوزیشن سے مذاکرات کا عندیہ بھی تواترسے دیا جانے لگا ہے۔صرف ایک شرط ہے کہ این آر او پر بات نہیں ہوگی۔مگر ایک دھرنے کے نتیجے میں نواز شریف کا جیل سے لندن منتقل ہونا اسی شرط کی موجودگی میں وقوع پذیر ہوا، اور کوئی بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں ایسا ہی ایک اور واقعہ مریم نواز کی لندن روانگی کی صورت میں پاکستانی قوم دیکھ رہی ہو اور این آر او کا ذکراس کی تمام تر خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ وزراء کی زبان پر جاری رہے۔اس بے اعتباری کا خاتمہ ضروری ہے۔پی پی پی کے سینئر رہنما اور ماہر قانون دان اعتزاز احسن استعفوں کے حوالے سے پیدا ہونے والی آئینی صورت حال پررائے دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ مریم نواز نے گراس روٹ لیول تک اپنی قائدانہ صلاحیت منوا لی ہے اس کے صلے میں اگر کوئی ریلیف حاصل کر لیں توامکان کو ردنہیں کیاجاسکتا۔اور ریلیف کا وسیع مفہوم لندن تک پھیلا ہوا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس کریڈٹ کون لے گا؟اس لئے کہ نواز شریف کی روانگی کا بوجھ اٹھانے کو کوئی تیار نہیں۔عدالت اور حکومت دونوں ہی اپنااپنا دامن بچانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں، بلکہ میڈیا کو بھی ہلکے پھلکے انداز میں فریق قرار دیا جاتا ہے۔دھرنا دینے والوں کا لہجہ آج بھی دھیما نہیں ہوا حالانکہ وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ پچھلی بار ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔سسٹم میں کہیں نہ کہیں کوئی ایسی ریموٹ کنٹرول سہولت موجودہے ورنہ کثیر تعداد میں آنکھیں ادھر مرکوز نہ ہوتیں۔آج بھی تجزیہ کار کوئی حتمی اور یقینی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔حکومت بھی ان شکوک کو ختم کرنے میں تاحال کامیاب نہیں ہوئی ورنہ ایک ہی روزتین سے زائد مقامات پر تقاریب میں وزیر اعظم سمیت مختلف حکومتی عہدیدار ایک ہی بیانیہ نہ دہرارہے ہوتے۔ کوئی تو بے یقینی ہے جو اس کا سبب ہے۔عام آدمی بھی وسوسوں کا شکار ہے۔کسی ایک کو سچا اور دوسرے کوجھوٹا کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے،دونوں کو سنتا ہے اور خاموشی سے اگلی شام کاانتظار کرتاہے۔
ابھی تک نیشنل ڈائیلاگ کے طلب گار بھی یہ طے نہیں کرپائے کہ مذاکرات کس کے ساتھ کئے جائیں؟ مسلم لیگ کے رہنما احسن اقبال نے واضح کر دیا ہے کہ آج کوئی سیاستدان حکومت کے ساتھ مذاکرات کر کے ماضی کا ”رفیق باجوہ“ بننے کو تیار نہیں۔لیکن اس کیفیت میں سیاست دیر تک نہیں رہ سکتی، ”رفیق باجوہ“ تنہا ملاقات کے لئے نہ جاتے، دیگر ساتھیوں سے مشورہ کر لیتے، پی این اے کے کسی ایک یا دورہنماؤں کو ساتھ لے جاتے تو ممکن ہے وہ ساتھیوں کی بے اعتناعی کا شکار نہ ہوتے۔مگریہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ان دنوں سڑکوں پر لگایا جانے والا”راشہ راشہ، اصغر راشہ“ کا مرکزی نعرہ کیوں بے نتیجہ رہا تھا۔منزلاسے کیوں ملی؟ جو شریک سفر نہ تھا! آج بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ میں معاملات طے نہ کرنے کا نتیجہ جمہوریت کو کتنا مضبوط کرے گا؟ جمہوریت میں پارلیمنٹ کو بالا دستی حاصل ہوتی ہے، بشرطیکہ پارلیمنٹ ”ربر اسٹیمپ“ نہ ہو، ”ہز ماسٹرز وائس“نہ ہو۔ عوامی مسائل اور مشکلات پربات کرنے والا ایک ”نورعالم“ نہ ہو، پوری پارلیمنٹ میں ہر سیٹ پر ایک ”نورعالم“بیٹھا ہو۔کوئی ووٹ چور یا نوٹ چور اسمبلی میں داخل نہ ہو سکے۔ہمہ اقسام کے چوروں پر پارلیمنٹ کے دروازے مستقل بند ہوں۔جو کام کسی اشارے پر لائن میں لگ کر کیاجائے وہ بھی اتنا ہی ناپسندیدہ ہونا چاہیئے جتناکہ کمپیوٹر کا سسٹم بٹھا کر کیا جانے والا کام ناپسندیدہ سمجھاجا رہا ہے۔یاد رہے،انتخابات کو قانون کی مدد سے شفاف بنانے سے پہلے اسمبلی تحلیل ہوئی تو آئندہ منعقد ہونیوالے انتخابات کو شفاف تسلیم کرنے کا پیمانہ کیا ہوگا؟ اپوزیشن قانون سازی سے انکار نہ کرے، حکومت کے عزائم کو بے نقاب کرنے کا واحد راستہ قانون سازی ہے۔ورنہ پی ڈی ایم کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ بعد میں کف افسوس ملنے سے بہتر ہے قانون سازی کے بعد اسمبلیاں تحلیل کرائی جائیں۔حکومت نے کابینہ میں تبدیلی لاکر سگنل دے دیا ہے آنے والے دن آسان نہیں ہوں گے۔ اگلے روز پنڈی والے شیخ رشید احمد نے اپنے نئے عہدے (وزیر داخلہ) کا حلف اٹھا لیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں