مند ر نذر آتش کرنا اسلامی شعائر کے منافی ہے
کرک میں ایک مندر کو نذر آتش کر نے کے مناظر دیکھ کر عام آدمی کودکھ ہوا۔ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ مگر زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ عوام کو مشتعل کرکے اس غیر اسلامی، غیر قانونی اور غیر انسانی عمل تک لے جانے کا الزام ایسی سیاسی پارٹی کے ضلعی امیر سمیت 350افرادپر لگا ہے جس کی بنیادی شناخت ”اسلام“ ہے اور اس کی تشکیل قیام پاکستان سے پہلے ہوئی تھی۔ اس تکلیف دہ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ہندو کمیونٹی چیف پیٹرن رمیش کمار کے ہمراہ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری پہنچ گئی تھی۔ اور یہ معاملہ چیف جسٹس پاکستان کے از خودنوٹس کی بناء پرعدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے، اس لئے تفصیلی گفتگوفی الحال مناسب نہیں۔ 4 جنوری تک چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا اور آئی جی پولیس کی رپورٹ موصول ہونے کے بعد 5 جنوری کوسماعت ہوگی۔رپورٹ سامنے آنے پر کہا جا سکے کہ زمینی حقائق کیاہیں؟ علاوہ ازیں اس شرمناک واقعہ پر ایک اچھی ساکھ کے حامل سابق آئی جی پولیس شعیب سڈل کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بھی تشکیل دے دیا گیا ہے،توقع ہے کہ وہ اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر غیر جانبدارانہ اور غیرمتعصب رپورٹ مرتب کریں گے۔پاکستان میں مذہبی بنیادوں پرمسلم برادریوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات تو ہوتے رہے ہیں لیکن بابری مسجد کے انہدام کے بعداس قسم کے عناد کی یہ پہلی بڑی واردات ہے۔البتہ اندرون سندھ مسلم لڑکوں اورہندو بچیوں کے مابین شادی کے اکا دکا واقعات رونما ہونے کی اطلاعات ضرور ملتی رہیں، اب اس قسم کی شکایات کے ازالے کے لئے قانون سازی ہو چکی ہے۔قانون پرعملدرآمد کے نتیجے میں یہ سلسلہ بھی ممکنہ حد تک رک جائے گا۔ ہندو کمیونٹی پرامن طور پر آباد ہے۔
کرک واقعہ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے ڈی پی او عرفان اللہ کا کہنا ہے کہ کہ سمادھی میں ہندو توسیع کرنا چاہتے تھے، جس پر مقامی آبادی مشتعل ہوگئی اور یہ واقعہ رونماہوا۔تاہم اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ پولیس نے نامزد مرکزی ملزم سمیت31افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ورنہ متأثرہ فریق کو شکایت ہوتی کہ حکومت جان بوجھ کر شرپسندوں کے خلاف نہیں کررہی۔ عدالت عظمیٰ ملزمان کے عزائم کا کھوج لگا کر تمام حقائق اور شواہد کی روشنی میں فیصلہ صادرکر دے گی، اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا، اس لئے کہ وقوعہ کے روز ہی چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے از خود نوٹس لے لیا ہے۔اس واقعہ میں نامزد مرکزی ملزم کا تعلق جے یو آئی سے ہے اوروہ ضلعی امیر ہیں۔جبکہ ان دنوں جے یو آئی حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے ایک ملک گیر تحریک چلا رہی ہے، اور مولانا فضل الرحمٰن جے یو آئی کے علاوہ 11جماعتی اتحاد پی ڈی ایم کے بھی سربراہ ہیں۔وہ خود بھی معاملے کی چھان بین میں عدالت کی مدد کریں گے۔ اچھا ہوا کہ مندر کی توڑ پھوڑ اور نذر آتش کرنے میں کسی ایسی پارٹی کا کوئی گمنام شخص مرکزی ملزم نہیں قرار دیا گیاجسے جواز بناکر سارا ملبہ حکومت کے سر ڈالنا آسان ہوجاتا۔ماضی میں اپنی جان چھڑانے کے لئے اسی قسم کے حربے مستعمل رہے ہیں۔ہندو برادری بھی پولیس کارروائی سے ایک حد تک مطمئن نظر آتی ہے۔ وقوعہ کے وقت پولیس کا تماشائی بن کر کھڑے رہنا کوئی انوکھی بات نہیں، یہ اس کی دیرینہ عادت ہے، جب بھی کوئی مشتعل ہجوم کسی نجی یا سرکاری عمارت میں توڑ پھوڑ کرتا ہے یا آتش زنی کا مرتکب ہوتا ہے پولیس دورسے تماشہ دیکھتی ہے۔شاید اسے بروقت کارروائی کا اختیار حاصل نہیں۔یا کوئی قانونی رکاوٹ حائل ہے؟وجہ کچھ بھی ہو،نجی یاسرکاری املاک کو بچانے میں پولیس ہمیشہ گریزاں رہتی ہے۔ اسے لاتعلق رہنے کی ہدایت اپنے افسران بالا کی جانب سے دی جاتی ہے کہ مشتعل ہجوم اسے جواز بنا کر خونریزی پر نہ اترے اور انسانی جانیں محفوظ رہیں، اس لئے کہ مالی نقصان کا ازالہ کیا جا سکتا ہے لیکن جان کا متبادل کوئی نہیں۔جو ایک بار جان کی بازی ہار گیا وہ ہمیشہ کے لئے جان سے گیا،قیامت سے پہلے زندہ نہیں ہوگا۔
کرک واقعے کی حمایت کرنا کوئی باشعور شہری پسند نہیں کرے گا۔اسلام نے(قرآن کی سورۃ البقرۃ آیت191اور آیت217میں) فتنہ و فساد کو قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم قرار دیا ہے۔جبکہ سورۃ المائدہ کی آیت32میں اللہ نے ایک بیگناہ شخص کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف کہاہے۔قرآن میں کسی شخص کو دوسرے کے گھر(جائیداد) میں بغیر اجازت داخل ہونے سے بھی منع کیاہوا ہے۔ اسلام کے نام پر قتل و غارت گری بعض لوگوں کاانفرادی فعل ہے، اسے اسلامی کہنا اسلام پر بہتان تراشی اور کھلے جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔قرآن کی سورۃ الانعام کی آیت 65میں فرقہ بندی کو بھی اَللہ نے اپنا عذاب قرار دیا ہے، سورۃ الانعام کی آیت159میں یہاں تک وضاحت کی ہے جن لوگوں نے اپنے دین کو فرقے بنا لیا اور چھوٹے چھوٹے گروہ بن گئے ہیں،ان کا محمد ﷺ سے ہر قسم کا تعلق ختم ہوجاتاہے۔جسے شبہ ہو قرآن کھولے اور مذکورہ آیات دیکھ لے،اور اپنی تسلی کر لے۔اسلام کو اپنے دیگر مفادات کی ڈھال نہ بنایا جائے۔اگرڈی پی او عرفان اللہ کی یہ بات ایک لمحے کے لئے درست مان لی جا ئے کہ ہندو کمیونٹی مندر کو توسیع دینا چاہی تھی تب بھی کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں، عدالتیں موجود ہیں اگر ہندو کمیونٹی کوئی غیر قانونی کام کر رہی تھی تواس کے خلاف مقدمہ دائر کرتے، عدالت معاملے کی جانچ پڑتال کے بعد فیصلہ صادر کرتی، معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہو جاتا۔نہ مندر کو آگ لگانے کی ضرورت پیش آتی اور نہ ہی جے یو آئی کے ضلعی امیر سمیت 31دیگر افراد کو پولیس انسداد دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار کرتی۔ اور نہ 350افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوتا۔ مندر کو نذر آتش کرنا اسلامی شعائر کے منافی ہے۔یہ بات جے یو آئی کے ضلعی امیر کو مذکورہ آیات لازماً یاد ہوں گی۔کاش وہ جذباتی رویہ اختیار نہ کرتے، قرآنی ہدایات پر عمل کرتے۔نہ خود گرفتار ہوتے نہ دوسروں کو مشقت میں ڈالتے۔