تھوڑاصبراور۔۔۔مگر کب تک؟
وزیر اعظم عمران خان نے عوام سے اپیل کی ہے کہ تھوڑا سا صبر مزید کرنا ہوگا۔مگر انہوں نے تھوڑا سا کی وضاحت مناسب نہیں سمجھی۔یہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ خودہی کرلیں۔عوام جانتے ہیں کہ اگست 2018 میں پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالا تھا۔اقتدار سنبھالتے ہی وزیر اعظم نے ایک 100 روزہ پلان پیش کیا تھا جس میں دیہی معیشت کو فروغ دینے کے لئے مرغ بانی اور بھینس کے نر بچے (کٹّے) پالنے کا اعلان کیا گیا تھا۔اپوزیشن نے اس پلان کا طنزیہ تبصروں سے استقبال کیا تھا۔مگر حکومت کے غیر سنجیدہ رویہ سے یہ قابل عمل منصوبے ہوا میں تحلیل ہوگئے۔حالانکہ دیہاتوں میں یہ دونوں کام کئے جا سکتے تھے۔مرغ بانی کی جدید شکل متعارف کرائی جاتی تو اس سے اچھے نتائج حاصل ہوتے۔مگر فرسودہ روایات کا سہارا لیا گیا۔ وزارت زراعت اسے قابل عمل اور منافع بخش صورت میں پیش کرنے میں ناکام رہی۔ایک مرغا اور چار پانچ مرغیاں خاندان کی کفالت میں اہم کردار کی حامل نہیں۔واضح رہے جدید مرغبانی منافع بخش کاروبار ہے۔ ہر گاؤں میں جوائنٹ وینچر کے طور پر آگے بڑھایا جاتا تو کم از کم انڈے اور مرغیاں عوام آدمی کی دسترس میں رہتیں۔فیڈ کی تیاری بھی زرعی شعبے کو تقویت پہنچاتی۔جذباتی نعرے بازی کنونشن ہال میں تالیوں کے ساتھ ہی فضاء میں معدوم ہوجاتی ہے۔صرف نعروں سے نہ مرغبانی ہوتی ہے اور نہ ہی کٹّے پل کر جوان اور منافع بخش گوشت کی فراہمی میں مددگارہوتے ہیں۔دونوں کام ہوم انڈسٹری کی شکل میں سنجیدگی سے پیش کئے جاتے،تو دیہی معیشت کے ساتھ شہری آبادی بھی مستفید ہوتی۔روزگار کے مواقع بڑھتے۔دہی معیشت میں ایک ہلچل دیکھنے کو ملتی۔نمائشی پروگرام انجام کار شرمندگی سے دوچار ہوتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر پرعزم لہجے میں کہا ہے کہ ریاست کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں مزید کہا کہ ریاست مدینہ ایک جدوجہد کانام ہے، یہ سوئچ آن آف کرنے سے نہیں آتی، ساری قوم ایک بڑے خواب کی طرف جاتی ہے۔قربانیاں دیتی ہے، مشکل وقت سے نکلتی ہے، پاکستانی قوم بھی ایسی ہی ایک عظیم قوم بننے جا رہی ہے۔انہوں ان لوگوں کی سوچ پر حیرت کا اظہار کیا جو آن واحد میں سب کچھ تبدیل ہونے کی آس لگائے بیٹھے تھے، ایسا صرف طوطا پری کی کہانیوں (فیری ٹیلز)میں ہو سکتا ہے کہ میں جادو کا ڈنڈا گھماؤں اور سارا ملک ٹھیک ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ بگڑنے میں 50سال لگے ہیں، کہیں 30سال لگے ہیں۔ سینیٹ الیکشن میں 30سال سے خریدوفروخت ہو رہی ہے، لوگوں کے ضمیر خرید کر سینیٹر بنتے ہیں، پیسے دے کر سینیٹر بننے والا پیسے کمانے آتا ہے، ملکی خدمت کے لئے نہیں آتا۔میں نے دو پارٹیوں کی موجودگی میں تیسری پارٹی کے لئے جگہ بنائی، یہ آسان کام نہیں تھا، لیکن آج سب دیکھ رہے ہیں کہ عوام کی مدد سے میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔سستے مکانات کی تعمیر کے بارے وزیر اعظم نے بتایا جیسے جیسے وسائل آتے جائیں گے یہ کام آگے بڑھے گا۔دنیا میں کوئی بھی حکومت سارے غریبوں کے لئے گھر بنا کر نہیں دیتی۔یورپ میں 80فیصد،ملائیشیا میں 30فیصد، اور بھارت میں 10فیصد لوگ بینکوں سے قرضہ لے کر گھر بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بڑے لوگوں کا احتساب جاری ہے، جلد ہی سوئٹزر لینڈ کے 6کروڑ ڈالراوران کی لوٹی ہوئی رقم قومی خزانے میں واپس آئے گی۔ حدیبیہ پیپر ملز کیس میں این آر او دے کر ملک کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔پیسے پاکستان آنے تھے، این آر او دے کر یہ رقم لوٹ مار کرنے والوں کے حوالے کر دی گئی۔آدھا ٹیکس قرضوں کی اقساط میں چلا جاتا ہے۔مہنگائی پر وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ہر ہفتے صورت حال کا جائزہ لیتا ہوں۔سمجھتا ہوں کہ مہنگائی سب سے زیادہ تکلیف دہ چیز ہے۔کورونا ویکسین کے بارے میں انہوں نے کہا کہ امیر غریب سب کو لگایا جائے گا۔اس کے لئے حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے۔
سوال یہ نہیں کہ مہنگائی کرنے کے لئے کیا کوشش کی جارہی پہے؟ سوال یہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقہ اپنی کم تنخواہ میں مقابلہ کیسے کرے؟ ہر مہینے دو بار سارے یوٹیلٹی بلوں اضافہ عوام کی چیخیں نکلوا دیتا ہے۔تنخواہوں اضافہ نہ ہونے سے مہنگائی کا بوجھ عوام کے لئے حد درجہ ناگوار بلکہ زہریلا ہوتا جا رہا ہے۔وزیر اعظم کبھی غریب گھرانے کے مسائل اپنی آنکھوں سے دیکھیں انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ غریب عوام آپ کو اپنے پالتو کتے کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرتے دیکھ کر بھی سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔انہیں جنرل پرویز مشرف اور اس کا کتا یاد آجاتا ہے جو بقول آپ کے دو این آر او دے کر ملک کو مسائل کی دلدل میں دھکیل گیا ہے۔انہیں خدشہ ہے کہ کہیں عمران خان بھی اپنے کتے کے ساتھ کھیلتے ہوئے ان (عوام)کو کسی بڑے صدمے سے دوچار نہ کر دیں۔بزرگ کہہ گئے ہیں کہ سانپ کا کاٹا رسی سے بھی ڈرتا ہے۔دودھ کا جلا چھاچھ( لسّی) کو بھی پھونک کر پیتا ہے۔ عوام کئی بار سانپوں سے ڈسے جا چکے ہیں، جنہیں دودھ نصیب ہے وہ چھاچھ بھی پھونک کرپیتے نظر آتے ہیں۔مہنگائی کا راستہ جتنی جلدی ممکن ہو، روکا جائے۔بڑھتے بلوں سے نجات دلائی جائے۔ اکثریت اپنے بچوں کے اسکول کی فیس دینے کی سکت نہیں رکھتی۔ خیراتی کھانالوگ (اپنی عزت نفس کا گلا گھونٹ کر)مجبوراً کھاتے ہیں۔آپ جیب میں پیسے ہوتے ہوئے خیراتی کھاناکھاتے نہیں،بس چکھتے ہیں، کیمرا ساتھ ہوتا ہے، ویڈیو بن رہی ہوتی ہے۔غریب آدمی کے صبر کا کتنا امتحان لیں گے؟ آپ نے نہیں بتایا۔غریب آدمی صرف اتنا جانتا ہے کہ آپ کے اقتدار کی مدت اگر پوری ہوجائے تب بھی 2023میں ختم ہورہی ہے۔اس حساب سے آپ نے آدھی مدت گزار لی ہے، مافیاز ابھی تک بے لگام ہیں، شوگر مافیا ہو یا گندم مافیا ابھی آزاد ہیں۔جہانگیر ترین کی آزادی عام آدمی کے غصے میں اضافہ کرنے کے لئے کافی ہے۔کوئی ایسا اشارا عام آدمی دیکھے گا تب ہی اس کی آنکھوں میں جینے کی امنگ پیدا ہوگی۔صرف شہباز شریف، حمزہ شہباز اور خواجہ آصف کے جیل جانے سے عام آدمی کی تسلی نہیں ہوگی۔


