”لانگ مارچ“ غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی
11مختلف الخیال،مختلف سائز اورمختلف پس منظر کی حامل سیاسی جماعتوں کا اتحاد کبھی بھی پائیدار نہیں ہوا کرتا جبکہ منزل بھی ایک نہ ہو۔پی ڈی ایم بھی ایسا ہی ایک ڈھیلا ڈھالا اتحاد تھاجسے سابق وزیر اعظم اور نون لیگ کے تاحیات قائدنواز شریف کی لندن سے کی جانے والی ویڈیو لنک تقریر /بیانیئے نے 16 اکتوبر 2020کو ہی کرچی کرچی کر دیا تھااور وہ 18اکتوبر کے کراچی میں منعقدہ جلسہئ عام سے خطاب نہیں کر سکے تھے۔علاوہ ازیں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن روزاول سے ہی تمام اراکین سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے تھے،اور اسی اسمبلی سے صدارتی عہدے کے لئے ووٹ بھی مانگتے دکھائی دیئے۔گویا انہیں خود معلوم نہیں تھاکہ جس اسمبلی سے وہ ووٹ مانگ رہے ہیں وہ سلیکٹڈ اور جعلی ہے۔پی پی پی نے اپنا پروگرام11جماعتی اتحاد کے سامنے رکھتے ہوئے ہمیشہ ان ہاؤس اور آئینی تبدیلی پر اصرار کیا۔نہ پہلے لانگ مارچ اور دھرنے کا حصہ بنی اور نہ ہی آئندہ حصہ بننے کا عندیہ ظاہر کیا۔پی ڈی ایم کے 16مارچ والے سربراہی اجلاس میں پی پی پی کے حقیقی رہبر آصف علی زرداری نے کھل کر بتا دیا کہ پی پی پی کی سی ای سی نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کے اراکین کبھی مستعفی نہیں ہوں گے اور اگر پی ڈی ایم نے مستعفی ہونے پر اصرار کیا تو راہیں جدا ہو جائیں گی۔انہوں نے اپنی سابقہ پیشکش کو دہراتے ہوئے کہا کہ نواز شریف پاکستان آجائیں، سینیٹر اسحاق ڈار کو بھی ساتھ لائیں، پی پی پی اپنے استعفے ان کے ہاتھ پر رکھ دے گی۔انہوں نے پی ڈی ایم کی قیادت کو خبردار کیاکہ مستعفی ہونے کا نتیجہ پوری قیادت کی گرفتاری کی صورت میں نکلے گا۔نون لیگ کی نائب صدر اور لندن میں مقیم سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے جوابی خطاب میں کہا کہ نواز شریف کی زندگی کو نیب کی حراست میں خطرہ لاحق تھا، اگر آصف علی زرداری ان کی زندگی کی ضمانت دیں تو وہ واپس آ جائیں گے۔ابھی تک مریم نواز کوآصف علی زرداری نے زندگی کی ضمانت والے مطالبے کا کوئی جواب نہیں دیا، اور شاید کبھی نہیں دیں گے۔ایسا جواب تو دنیا کا بڑے سے بڑااسپتال بھی نہیں دے گا۔ خود نواز شریف لندن کے اسپتال سے اپنی والدہ کی میت بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان بھیج چکے ہیں۔ ان کی اہلیہ کا انتقا ل بھی لندن کے اسپتال میں ہوا تھا۔ کیا انہیں لندن میں کسی اسپتال یا برطانوی حکومت نے ایسی کوئی تحریری یا زبانی(آڈیو/ویڈیو) ضمانت دی ہے؟جسے فریم کراکے انہوں نے اپنے بیڈ کے سامنے دیوار پر آویزاں کر رکھا ہے یا ٹیبل پر سجا رکھا ہے؟ اور اسی ضمانت کی بناء پر لندن میں مقیم ہیں؟تاریخی اور زمینی حقیقت یہی ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ہمیشہ حکمرانوں سے جوڑ توڑ کرکے جیل کی بجائے بیرون ملک قیام کو ترجیح دی ہے۔ جنرل پرویز مشرف سے کیا گیا 10سالہ جلاوطنی کا تحریری معاہدہ اس رویہ کا ثبوت موجود ہے۔ موجودہ روانگی بھی کسی تحریری معاہدے کا نیتجہ ہے، جو مستقبل میں کسی مناسب وقت عوام کے سامنے آجائے گا۔ پی پی پی کے تاحیات رہبر ایک جہاندیدہ اورتجربہ کار سیاست دان اور سابق صدر مملکت ہیں۔مسلم لیگ نون کے تاحیات رہبر نواز شریف بھی منجھے ہوئے سینئر سیاستدان ہیں،تین بار ملک کے وزیراعظم رہے ہیں۔ لیکن جیل کے حوالے سے دونوں سیاست دانوں کا مزاج الگ ہے۔ آصف علی زرداری نے 14 سال جیل کاٹی ہے، لیکن نواز شریف کا ریکارڈ مختلف ہے۔پی پی پی کے پاس صوبہ سندھ کی حکومت ہے۔ باقی 9اتحادی جماعتیں بہت چھوٹی ہیں۔پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی بہت کم ہے۔ اپنا قد کاٹھ دیکھ کر سیاسی نعرہ لگانا چاہیئے۔342کے ہاؤس میں ایک، دو یا تین اراکین کا فیصد تناسب ایک فیصد سے کم نکلے گا۔7راکین والی جماعتوں کے پاس دو فیصد نمائندگی ہے۔سیاست خواہشات کے تابع نہیں ہوتی۔ عوامی حمایت کسی وجہ سے کوئی پارٹی کھو بیٹھے تواسے چاہیئے کہ اپنی کارکردگی کا باریک بینی سے جائزہ لے۔پی پی پی کے رہبراول نے بجا طور پر درست یاد دلایا ہے کہ نون لیگ نے اپنے دوراقتدار میں تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا، 18ویں ترمیم جیسی کوئی قابل ذکرترمیم نہیں کی۔جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے اکابرین کی قربانیوں کا ذکر کیا تو سب رونے لگ جائیں گے۔ان کے اس جملے سے عام آدمی یہی سمجھے گا کہ یہ دو یاتین جماعتوں کی جانب سے اپنے اکابرین کی بھولی بسری قربانیوں کی یاد منانے کی کوئی تقریب تھی، عوامی مسائل سے اس اجلاس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔اور نہ ہی عوامی مسائل پر کوئی بحث مباحثہ ہوا۔11جماعتی اتحاد کے سربراہی اجلاس کی کارروائی دیکھ یا پڑھ کر عام آدمی کوئی سیاسی گائیڈ لائن نہیں ملی۔11جماعتی اتحاد عام آدمی کو اس گفتگو میں یہ نہیں سمجھا سکا کہ لانگ مارچ اور اراکین کے استعفوں میں کیاسیاسی رشتہ ہے۔ان ہاؤس تبدیلی اور لانگ مارچ یادھرنے والی تبدیلی میں کیا فرق ہے؟ عام آدمی یہ بھی نہیں جانتا کہ 21جولائی کوپی ڈی ایم عوامی مفادات کے تحفظ کے لئے تشکیل دی گئی یا 7جولائی 2020کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے کی جانے والی پریس کانفرنس کا فوری رد عمل تھی؟عام آدمی گزشتہ چار دہائیوں کی حکومتی (سیاسی اور معاشی) غلطیوں کا مہنگائی، بیروز گاری،اور سیاسی ہیجان کی صورت میں حساب چکارہا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں قرضوں اس بوجھ سے کب چھٹکارہ ملے گا؟جو سابق حکومتوں نے عوام کی ترقی اور خوشحالی
کے نام پرلئے یا موجودہ حکومت لے رہی ہے۔عام آدمی کولھوکے بیل کی طرح دن رات مصروف ہے۔ پی پی پی کی جانب سے دو ٹوک جواب ملنے کے بعد راہیں جدا ہونے سے بچانے کی غرض سے پی ڈی ایم نے پی پی پی کو ایک اور موقع دیا ہے کہ اپنی سی ای سی سے حتمی مشورہ کر لے۔اس حوالے سے کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی گئی، اس لئے پی پی پی جب چاہے، سی ای سی کا اجلاس بلائے اور طے کرے کہ لانگ مارچ سے پہلے مستعفی ہوناہے یا نہیں ہونا؟ اچھا ہوا پی ڈی ایم نے گیند پی پی پی کے کورٹ میں پھینک دی،ورنہ اس کی ناقابل عمل دی جانے والی تاریخوں میں ایک اور تاریخ کا اضافہ ہوجاتا۔توقع ہے کہ محرم کے بعد تک معاملہ ٹل گیا ہے۔


