وزیراعظم اپنی کارکردگی پر مطمئن
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پارٹی (پاکستان تحریک انصاف) کی 25ویں سالگرہ پر کہا ہے کہ اپنے ڈھائی سالہ اقتدار میں جتنا کام ان کی حکومت نے کیاہے،ماضی کی کوئی حکومت نہیں کر سکی،انہیں ورثے میں بھاری قرضہ کی فوری ادائیگی کرنا تھی۔ دوست ممالک چین، سعودی عرب اور عرب امارات نے مالی مدد کی جس سے دیوالیہ ہونے سے بچے۔کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کرکے بڑی معاشی کامیابی حاصل کی ہے۔ دو ڈیم تعمیر کر رہے ہیں ان سے زرعی مقاصد کے لئے پانی اسٹور کیا جائے گا، سستی بجلی بھی ملے گی۔50سال بعدکوئی حکوت سمال اینڈ میڈیم انڈسٹری کو اٹھا رہی ہے، حکومت دو نئے شہر بنا رہی ہے،سندھ حکومت سے مل کر بنڈل آئی لینڈ میں بھی نیا شہر بنائیں گے۔لاہور میں بزنس سینٹر سے اربوں روپے کی سرمایہ کاری ہوگی۔تعمیرات کا شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔سیمنٹ کی ریکارڈ سیل ہوئی ہے۔تعمیرات کا شعبہ اوپر اٹھے گا تو لوگوں کو روزگار ملے گا۔کسانوں کو گندم اور گنے کی ریکارڈ قیمت مل رہی ہے۔کسان کارڈ جاری کیا ہے۔بہت بڑا زرعی پیکج لا رہے ہیں۔ 10 ارب درخت لگانے کے منصوبے پر عمل جاری ہے۔واضح رہے سیاحت کا شعبہ اتنی صلاحیت رکھتا ہے کہ صرف اس کی آمدنی سے ہمارے قرضے اتر سکتے ہیں۔دنیا میں 14پہاڑ ایسے ہیں جن کی اونچائی 8ہزار میٹر سے زیادہ ہے۔ان میں سے سات نیپال میں، پانچ پاکستان میں دو چین میں ہیں۔پاکستان میں ساڑھے چار ہزار میٹر سے سات ہزار میٹر بلندیوالے108پہاڑ ہیں۔چار ہزار میٹر بلند پہاڑ بے شمار ہیں۔پانچ سال بعد جب ہماری حکومت کی کارکردگی کا موازنہ سابق حکومتوں کے ساتھ کیا جائے گا تو خیبر پختونخوا کی طرح عوام کی اکثریت ہمارے ساتھ کھڑی ہوگی۔داتا دربار کے سامنے غریب مزدور فٹ پاتھ پر رات کو سویا کرتے تھے آج وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے ان کے لئے پناہ گاہیں تعمیر کر دی ہیں، آرام سے رات بسر کرتے ہیں۔ملک اس وقت ترقی کرتا ہے جب اس کے غریب عوام ترقی کرتے ہیں۔پی ٹی آئی کے چیئرمین کی حیثیت سے ان کا ڈھائی سال کی کارکردگی کا جائزہ قابل فخر ہو سکتاہے،جس سمت میں وزیر اعظم آگے بڑھ اور جس رفتار سے ان کا سفر جاری ہے اس کا علم صرف انہیں یا وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ہے۔عوام اس کے ثمرات سے بے خبر ہیں۔ان تک اپوزیشن کے تبصرے پہنچتے ہیں، اور وہ حد درجہ مختلف اور مایوس کن ہوتے ہیں۔اس موقع پر صرف اشارتاً اتنا کہنا کافی ہے۔عام آدمی کا حکومتی کارکردگی جانچنے کا اپنا پیمانہ ہے۔عام آدمی کی اولین خواہش ہے کہ بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتیں مہینے میں دوبار نہ بڑھائی جائیں۔سال بھر ایک ہی قیمت برقرار رہے۔اس کا مہینے بھر کا بجٹ یہ اضافہ تلپٹ کر دیتا ہے۔سبزی، دالیں، مرغی، گوشت میں سے کسی کے دام ایک جگہ قائم نہیں رہتے، دودھ کی قیمتیں بھی بڑھا دی جاتی ہیں۔آٹا اور چینی غریب آدمی کی غذائی ضرورت ہی نہیں بلکہ اس کی غذا کا بڑا حصہ ہے۔غریبوں کے بچے چائے روٹی پر پلتے ہیں۔ بڑے چٹنی روٹی سے گزارہ کرتے ہیں۔ متوازن غذا صرف کتابوں میں ملتی ہے،عملی زندگی میں کم نظر آتی ہے۔وزیر اعظم عمران خان ہاؤسنگ اسکیم سے بھی غریب آدمی کی زندگی میں بڑی تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔لیکن یہ تبدیل ابھی غریب آدمی کی دہلیز تک نہیں پہنچی۔غریب خاندن جس روز کچی آبادی سے اپنے پختہ گھر میں منتقل ہوگا اس روز اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں اطمینان دکھائی دے گا۔عام آدمی ابھی دعوے سن رہا ہے۔اور وہ سمجھتاہے کہ اس کی قسمت میں صرف دعوے ہی لکھے ہیں۔بانیان پاکستان نے بھی عام آدمی کے سامنے یہی دعویٰ کیا تھا کہ تمہاری زندگی سنور جائے گی۔مگر یہ دعویٰ آج بھی ایک سہانا خواب ہے۔داتا دربار کے سامنے فٹ پاتھ سونے والوں کو پناہ گاہیں ملی ہیں ابھی انہیں اپنا گھر نصیب نہیں ہوا۔لنگر خانوں سے بھوکا شخص پیٹ بھر لے، اچھی بات ہے مگر جو لذت اپنی محنت کی کمائی سے ملنے والی دال روٹی میں ہے وہ لنگر خانوں کے پلاؤ میں نہیں۔عزت نفس مجروح ہو تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔نظریں جھک جاتی ہیں، دل خون کے آنسو روتا ہے۔غریب آدمی عزت کی روٹی چاہتا ہے۔وہ عزت پر اپنی جان قربان کردیتاہے۔عزت کے ساتھ جینا چاہتا ہے۔پی ٹی آئی نے دو خاندانوں اور دو سیاسی پارٹیوں کا طویل سیاسی تسلط ختم کیا یقینا یہ آسان کام نہیں تھا۔اور 22سال تک مسلسل جدوجہد کی بھی یہ پہلی مثال ہے۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ عمران خان تندیئ بادِ مخالف سے گھبرانے والے نہیں۔لنگر خانے اور پناہ گاہوں جیسے یہ چھوٹے چھوٹے کام پیٹ بھروں کے لئے ایک فضول اور نمائشی کام ہو سکتا ہے لیکن جو لوگ اس سہولت سے استفادہ کرتے ہیں ان کے جذبات پیٹ بھروں سے مختلف ہونا فطری امر ہے۔یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کے تمام تلخ تبصروں کے باوجود غریب اور متوسط طبقہ ابھی پی ٹی آئی سے مایوس نہیں ہوا، ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں بھی برابر کی سطح کے قریب ووٹ ملے ہیں۔مزید کام کرنے کے لئے ابھی ڈھائی سال کے لگ بھگ وقت پی ٹی آئی کے پاس ہے۔ صحت کارڈ کے بعد کسان کارڈ کا اجراء کسانوں کے لئے پی ٹی آئی کی کارکردگی میں مثبت اضافہ ثابت ہوگا۔ادھرنون لیگ کی زبان پر جملے کافی حد تک فلسفیانہ روپ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ نون لیگ کی نائب صدر کل تک پی ٹی آئی کو مشورہ دیا کرتی تھیں: ”اگر شرمندگی سے بچنا چاہتے ہو تو فلاں تاریخ سے پہلے استعفیٰ دے کر گھر چلے جاؤ ورنہ عوام تمہیں نکال باہر کریں گے“۔اب کہنے لگی ہیں: ”نا اہل اور نالائق کو ہٹانا دو منٹ کا کام ہے، نہیں چاہتے کہ وہ سیاسی شہید بنے“۔لہجے کی تبدیلی اور الفاظ کی نشست و برخاست بلا وجہ نہیں، زمینی حقائق سے کچھ تو سیکھا ہوگا!سیاست کے حوالے سے اکثر و بیشتر کہا جاتا ہے کہ اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔پاکستانی سیاست مستثنیٰ نہیں، اس قول کا اطلاق پاکستانی سیاست پر بھی ہوتا ہے۔ اپوزیشن کے شب و روز آسانی سے نہیں گزرتے، حکومت کے مہینے گھڑیوں کی صورت اور اپوزیشن کی گھڑیاں مہینوں میں گزرتی ہیں۔وزیرداخلہ شیخ رشید بھی یہی کہتے ہیں۔ انہیں دونوں حیثیتوں اور اقصام کا طویل تجربہ حاصل ہے۔طالب علم کی حیثیت سے جیل جانا شروع کیا تھا۔ سر د و گرم چشیدہ ہیں۔نون لیگ کی نائب صدرمریم نواز کے لہجے میں تبدیلی غیر معمولی اشارہ ہے۔آنے والے دن ہی وضاحت کریں گے کہ پس پردہ کیا ہو رہا ہے۔


