اب عقل آجانی چاہیے

کچھ عرصہ پہلے مسلم لیگ نون کی اعلیٰ قیادت دھمکی دیا کرتی تھی اگر ہمیں اب اقتدار سے ہٹایا گیا تو ہمارے سینے میں جو راز ہیں افشا کر دیں گے اور تم کہیں کے نہیں رہو گے۔لیکن دھمکی کارگر نہ ہوئی۔اقتدار ہاتھ سے جاتا رہامگرچھوٹے بھائی سمیت پارٹی اقتدار میں رہی اس پر صبر شکر نہ کیا دھمکیوں کا سلسلہ جاری رکھااعلان ہوا ہم نے مصلحت پسندی ترک کردی ہے اب ہم نظریاتی ہیں ذلت کی موت مرنا پسند نہیں عزت کی موت والا راستہ منتخب کر لیا ہے انقلاب کے راستے پر چل پڑے ہیں اور پاکستان سمیت دنیا نے دیکھاکہ واقعی وہ جی ٹی روڈ سے اپنے قافلے کے ہمراہ عوام سے جگہ جگہ خطاب کرنے لگے۔نتیجتاًمقدمات کی فہرست بڑھتی گئی راز افشا ہونے لگے۔ ایک جج کا ویڈیو منظر عام پر لایا گیا،جس کے کلپس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ متعلقہ جج کا ضمیر اچانک بیدار ہو گیا ہے،وہ کئی راتوں سے سویانہیں اپنے دیئے گئے فیصلے پر انتہائی نادم ہے اور اس کے ساتھ ہی دعویٰ کیا گیا اب اس ویڈیو سے ثابت ہو گیا ہے کہ مذکورہ جج کاکردا راس کے اعلیٰ منصب کے سراسر منافی تھالہٰذاہماری قیادت کے خلاف دیئے گئے فیصلے کالعدم ہو گئے ہیں انہیں فوراً رہا کیا جائے۔رہائی نہ ملی الٹا اسکینڈل کے نتیجے میں ایک اور مقدمہ گلے پڑ گیا۔ پاکستان کے عوام سمجھے یہ دھمکیوں والی سیاست تھم جائے گی دونوں فریق اپنی اصلاح کر لیں گے،گلی گلی کوچے کوچے یہ آہ و بکا رک جائے گی۔لیکن یہ سیاسی حکمت عملی تا حال نہ صرف جاری ہے بلکہ اس کادائرہ وسیع ہوگیا ہے جمیعت علماء اسلام کی قیادت بھی اعلان کرنے لگی ہے کہ انہیں گزشتہ اکتوبر نومبر میں دھرناختم کراتے وقت یقین دلایا گیا تھاجنوری میں حکومت کا بوریا بستر سمٹنا شروع ہوجائے گا، مارچ میں گھر چلی جائے گی۔جواب آیا کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی،مولانا فضل الرحمٰن نے اگلے روز وہ نام دنیاکے سامنے لانے کی فائنل دھمکی دے دی۔اب گیند دوسرے کیمپ میں ہے دیکھیں نام بتانے کا مرحلہ آئے گا یا کسی مناسب وقت کے لئے ٹال دیا جائے گا۔لگتا ہے دونوں فریق پرانی راہ سے ہٹنے کو تیار نہیں۔نقصان عام آدمی کو پہنچ رہا ہے۔جمیعت علماء اسلام کے سربراہ طویل سیاسی سفر کے بعد اپنی دوسری نسل میدان میں اتار چکے ہیں۔مناسب ہوتاکہ وہ باقی زندگی دین کی تبلیغ کے وقف کر دیتے سیاست اپنے جواں سال بیٹے کو سونپ دیتے وہ بھی ماشاء اللہ قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔مولانا کو یہ بات یقیناً معلوم ہو گی کہ جب وہ کہتے ہیں
”جن لوگوں نے یقین دلایاتھا حکومت مارچ
میں گھر چلی جائے گی ان کے نام ظاہرکر دیں گے“
تو وہ یہ اقرار کر رہے ہوتے ہیں کہ اکتوبر نومبر میں وہ اپنی مرضی سے اسلام آباد کی سرحد پر دھرنا دینے نہیں آئے تھے بلکہ کسی کے کہنے پر یہ اقدام کیاتھا۔یہ اقرار مولاناجیسی مذہبی اور سیاسی شخصیت کے شایان شان نہیں۔اس طرح وہ خود بھی بدنام ہورہے ہیں اور سیاست کو بھی بدنام کر رہے ہیں۔انہیں یاد رہے کہ یہ سیاست انہیں اپنے عظیم والد مفتی محمود سے وراثت میں ملی تھی۔انہیں امریکی سیاست دان الگورکے وہ کلمات یاد ہوں گے جو بڑے بش کے حق میں ایک غیر معیاری عدالتی فیصلہ آنے پر میڈیا کے روبرو الگور نے ادا کئے تھے
”میں چار سال بعد صدر بن جاؤں گامگر عدالتی وقار مجروح ہوگیاتو کبھی بحال نہیں ہوگا“
سیاست کو جس بری طرح بے آبرو کیا جا رہا ہے وہ سیاست کے لئے نقصان دہ ہے۔تمام سیاست دان اپنے رویہ پر غور کریں سیاست کے وقار کو مجروح ہونے سے بچائیں۔اگر وہ لوگ اس لئے برے ہیں کہ انہوں نے مولانا کو یقین دہانی کرائی تھی تو ان کی یقین دہانی پر جو کچھ مولانا نے کیا تھا اسے کیا نام دیا جائے گا؟یہ”سلیکٹڈ“والی گالی کس پر چسپاں ہوگی؟ عوام کا خصوصاً اپنے ووٹرز کا خیال رکھیں اس قسم کے دعووں سے انہیں دکھ پہنچتا ہے۔نون لیگی قیادت لاکھ کہے وہ اپنے گناہوں کا کفارہ ادا نہیں کر سکتی۔شریف فیملی کے ساتھ مذہبی قیادت کا لاحقہ نہیں لگا ہوا وہ زیادہ سے زیادہ ایک سیاست دان ہیں انہوں نے تو داڑھی کا تکلف بھی پسند نہیں کیا۔ان پر مدرسے کے طالب علموں نے جوتے برسائے اور وہ جوتے مہنگے داموں خرید کر کسی قدردان نے محفوظ کرلئے تھے۔ سیاست دان اگر سیاست کو اپنے ہاتھوں خود ہی رسوا کریں گے تو اپنی نسل کو وراثت میں نیک نامی نہیں منتقل کر سکیں گے۔پوتے کو اس کے دادا کی نیک نامی ورثے میں پہنچانے کا فریضہ ادا کیا جائے۔ ہمارے سیاست دان اگر یہی سوچ لیتے تو بڑا کام تھا۔سیاست کو رسوا ہونے کی فکرکی جائے مزید رسوائی سے بچایا جائے۔انگریزوں بڑا مشہور قول ہے
”اگر دولت چلی گئی کچھ نہیں بگڑا
اگر صحت چلی گئی کچھ نقصان ہوا
اور اگر کردار چلا گیاتوسب کچھ لٹ گیا“

اپنا تبصرہ بھیجیں