امریکہ کے خونخوار چہرہ
امریکہ کے سابق صدر باراک اوبامہ نے جاتے جاتے اعلان کیا تھا کہ پاکستان آئندہ دو دہائیوں تک عدم استحکام کا شکار ہے گا خام خیال ہے کہ یہ امریکی صدر کا اندیشہ نہیں بلکہ ارادے کا اظہار تھا امریکی حکمرانوں کو کو کافی پہلے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ افغانستان میں جنگ ہا رہے ہیں لہٰذا انہوں نے جنگ کو جاری رکھنے کے لئے نئے پہلو تلاش کرنا شروع کردیئے تھے خطے میں ترقی کرتے ممالک خاص طور سے چین کے خلاف اقداما ت کرنا امریکی حکمرانوں اپنی بنیادی ضرورت سمجھتے تھے۔چین اور روس نے گزشتہ کئی برسوں کے دوران مثبت خارجہ پالیسی کے باعث اپنی پوزیشن کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لئے قابل قبول بنایا ہے عراق شام اور یمن میں امریکہ نے داعش جنگجوؤں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا لیکن ساری رجعتی قوتیں ملکر بھی شام میں صدر بشار الاسد کا حکومت گردنے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکیں۔اس محاز پر پسپائی اختیار کرنے والے داعش جنگجوؤں کو افغانستان اور کسی حد تک پاکستان میں متعلق بنانے کی کاوشیں جاری ہیں۔پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کا قید سے فرار،لال مسجد والے مولانا عبدالعزیز کی واپسی اور حافظ سعید کی بحالی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں بھی پرانی۔۔چلانے کی تیاری جاری ہے افغانستان کے مختلف علاقوں میں داعش جنگجوؤں کی فعالیت اور خاص طور سے گزشتہ ایک سیاسی جلسے پر دہشت گرد حملہ اور پر داعش کی طرف سے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے سے خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال اپنے نین نقش واضح کرتی نظر آرہی ہے اس میں شبہ نہیں کہ امریکی قیادت میں قائم عالمی نظام لرزہ پر اقدام ہے امریکہ بطور واحد سپرطاقت پسپائی کے شکار ہے۔تاہم امریکی حکمران کسی بھی قیمت پر اپنے سامراجی مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔افغانستان عراق شام یمن وغیرہ میں لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد اب وہ افغانستان اور پاکستان میں بڑے پیمانے پر آگ اور خون کا کھیل کھیلنے کی تیاری کررہے ہیں