وزیر اعلیٰ سندھ کی سپریم کورٹ میں طلبی

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی میں تاخیر کی بناء پروزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیاہے۔واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ نے حکومت سندھ کو مذکورہ کام دو ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی مگر3ماہ گزرنے کے باوجود حکومت سندھ نے انڈر پاسز کی تعمیر کا ٹھیکہ نہیں دیاابھی پی سی ون کے لئے ڈی جی ایف ڈبلواو سے 25ملین مانگے ہیں۔ معزز عدالت نے اس کام کے لئے 10ارب کا تخمینہ بھی کم کرنے اور یہ کام 5ارب روپے میں مکمل کرنے کا حکم دیا ہے،معززعدالت سمجھتی ہے کہ یہ کام 5ارب روپے میں کیا جا سکتا ہے،زیر زمین منصوبوں پر لاگت کم آتی ہے۔ڈی جی ایف ڈبلیواو کے بھیجے ہوئے ڈیزائن کی منظور نہیں دے رہی۔۔۔۔ اصولاً کراچی سرکلر ریلوے کی تعمیر کے حوالے سے معاملہ سپریم کورٹ تک جانا ہی نہیں چاہیئے تھا۔پاکستان ریلوے اور صوبائی حکومت کومل جل کراسے بہت پہلے پایہئ تکمیل تک پہنچادینا چاہیئے تھا۔25سال سے یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑا ہواہے۔کراچی میں شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی شدید قلت کا سامنا ہے۔سرکاری بسیں عرصہ ہوا بند ہوگئی ہیں۔کبھی کبھی اس ضمن میں نیم دلانہ اقدامات کئے جاتے رہے جو صوبائی حکومت اور کراچی میٹروپولیٹن میں دو مختلف پارٹیوں کے مابین سیاسی مخاصمت کی وجہ سے ناکام ہوئے۔ نتیجتاً کراچی کے شہری خسارے میں رہے۔مفاد عامہ کا خیال رکھنا ہر حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے، شہریوں کی زبوں حالی کے پیش نظر معاملہ سپریم کورٹ جا پہنچا۔ عام طورپر سمجھاجاتا ہے کہ وفاق اور صوبے عدالت عظمیٰ کی ہدایات کا احترام کرتے ہیں۔لیکن وزیر اعلیٰ سندھ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری ہونے کے بعد اس عمومی تصور کو دھچکا لگا ہے۔زیادہ بہتر ہوتا کہ صوبائی حکومت عدالت کی دی گئی ہدایت کے مطابق کے سی آر کا مطلوبہ ٹریک مکمل کرلیتی۔
صرف یہی ایک مسئلہ نہیں، اس سے جڑے ہوئے بعض دیگر مسائل بھی ہیں؛ریلوے ٹریک پر گزشتہ دہائیوں میں کی جانے والی غیر قانونی تعمیرات بھی ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔اس جرم کی مرتکب وہ تمام حکومتیں، متعلقہ ادارے اور سیاسی جماعتیں ہیں جو اس دوران سندھ میں اقتدارکے مزے لوٹتی رہیں،ان کے کارکن پارٹی کے جھنڈے لہرا کر غیر قانونی قبضہ اور خرید و فروخت میں مصروف رہیں۔ 12 سال سے پی پی پی کی حکومت ہے۔آج سزا ان بیگناہ شہریوں کو دی جارہی ہے جو اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی ان مجرموں کے حوالے کرکے یہ سمجھے تھے کہ سر چھپانے کی جگہ مل گئی ہے۔اگر حکومت اور اس کے ماتحت ادارے(کے ڈی اے، کے ایم سی اور پولیس) اس غیرقانونی کاروبار کی سرپرستی نہ کرتے تو آج ریلوے ٹریک کو خالی کرانے کا پریشان کن مسئلہ سر نہ اٹھاتا۔اس غفلت، لاپروائی اور اعانت مجرمانہ سے عدالت عظمیٰ اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتی۔کراچی شہر کی خوبصورتی لالچی حکمرانوں،مفاد پرست اداروں اور قانون شکن لینڈ مافیا نے بری طرح مسخ کرکے رکھ دی۔صدر میں واقع دو تاریخی مقامات ایمپریس مارکیٹ اور جہانگیرپارک کے اطراف تعمیر شدہ تجاوزات سپریم کورٹ کے حکم پر ہٹائی جا چکی ہیں۔کراچی کے قانون پسند شہریوں کو امید ہے کہ دیگر پارکس، کھیلوں کے میدان اور قبضہ کی گئی جائیدایں بھی لینڈ مافیاز سے خالی کرائی جائیں گی تاکہ کراچی کو اس کا کھویا ہواحسن واپس مل سکے جو اس شہر کی شناخت تھا۔ اوریہ شہردوبارہ روشنیوں کا شہر اور امن کا گہوارہ بن جائے۔اس امید کو یقین میں بدلنے کے لئے شہری سپریم کورٹ کی جانب دیکھ رہے ہیں۔سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ سندھ کوتوہین عدالت کے نوٹس کاجواب دینے کے لئے ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔آئندہ پیشی پر اگر ان کی صحت نے اجازت دی تو کراچی سرکلر ریلوے کا نامکمل ٹریک اپنی تکمیل کا بند سفر دوباہ شروع کر دے گا۔لیکن اس رجحان کو ختم ہونا چاہیے کہ جب تک معززعدلیہ کسی منصوبے کا نوٹس نہ لے،اس پر حکومت کام نہیں کرے گی۔
بلدیاتی اداروں کی آئینی مدت ختم ہو چکی ہے۔سپریم کورٹ نے اس تاخیر کا نوٹس بھی لے رکھا ہے۔ تین صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔مگر وہاں بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جا رہے۔وزیر اعظم عمران خان خود بھی ایک سے زائد مرتبہ قوم سے کہہ چکے ہیں کہ وہ ایسا بلدیاتی نظام لا رہے ہیں جس میں میئر کا انتخاب براہ راست ووٹرز اپنے ووٹ سے کریں گے اور وہ لندن کے میئر جیسا با اختیار ہوگا۔یورپی ملکوں کی طرح ٹیکس لگا سکے گا۔اس کی اپنی آمدنی ہوگی، صوبوں یا وفاق کا محتاج نہیں ہو گا۔یہ ممکن ہے، لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔مطلوبہ آئینی ترمیم کی تیاری یا منظوری دور دور تک نظر نہیں آتی۔حکومت جانتی ہے کہ سینیٹ میں اسے مسترد کردیا جائے گا،ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے۔بار بار خفت اٹھانا حکومت کو پسند نہیں۔مارچ تک یہ کام التواء کا شکار رہے گا۔اپوزیشن سینیٹ کے انتخابات میں سیکرٹ بیلٹنگ ختم کرنے کو تیار نہیں،اپوزیشن کا خیال ہے کہ شو آف ہینڈز میں ووٹوں کی خرید و فروخت مشکل ہو جائے گی۔اس کے نتیجے میں چھوٹے صوبوں سے غیر سیاسی سینیٹرز کی کامیابی کا راستہ بند ہو جائے گا۔یہاں قابل توجہ امر یہ ہے کہ جب تک قانون ساز ادارے میں دولت کے بل پر سیٹ حاصل کرنے کی راہ نہیں روکی جاتی ملک میں صاف، شفاف، اور غیر جانبدار انتخابات کی امید نہیں کی جا سکتی۔جس ملک میں قانون ساز ادارہ دھاندلی سے پاک نہ ہو، وہاں مافیاز کا خاتمہ ایک خواب رہے گا۔یہ بات سیاست کاعام طالب علم بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ تنہا سپریم کورٹ مافیاز کا خاتمہ نہیں کر سکتی۔ یہ بھاری پتھر ریاست کے تمام ادارے مل کر ہٹائیں گے تب عام شہری کی جان بے رحم اور خود غرض مافیاز سے چھوٹے گی۔ مافیاز کو کابینہ تک پہنچانے میں پارلیمنٹ کا کردار کسی سے مخفی نہیں اسی لئے لگتا یہی ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں خفیہ رائے شماری والی آئینی شق آئندہ مارچ تک موجود رہے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں