وزیر اعظم مشروط مستعفی ہونے کو تیار

وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن سے کہا ہے لوٹی ہوئی رقم قومی خزانے میں جمع کرادو، میں مستعفی ہو جاؤں گا۔وزیر اعظم ایک 22سالہ طویل جدوجہد کے بعدوزیر اعظم بنے ہیں۔22سال ایک انسان کی عمر کا بڑا حصہ ہے۔پاکستان جیسے ملک میں اتنا عرصہ سیاسی جدو جہد کرنا ایک مشکل کام ہے۔یہاں 11سال طویل مارشل لاء اور ڈھائی سالہ سویلین حکومتوں کا رواج رہا ہے۔کھلی آنکھوں دیکھتے اورسنجیدگی سے غور کرنے والا شخص پاکستان میں سیاسی پارٹی بنانے کے بارے سوچ نہیں سکتا۔ان حالات میں عمران خان نے یہ مشکل فیصلہ کیاتھا اور آج ڈھائی سال بعدوزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کی پیشکش کر رہا ہے تو اپوزیشن اتنا سستا اونٹ خریدنے کو ہرگز تیار نہیں ہوگی اس لئے کہ اونٹ کے گلے کی گھنٹی بہت مہنگی ہے۔اپنی عمر بھر کی کمائی عمران خان کے استعفے پر خرچ کر دیں ایسا ممکن نہیں۔عمران خان نے ایسی شرط رکھی ہے جوقیامت تک پوری نہیں ہوگی۔اگر یہ کام کرنا ہوتا تو پانامہ لیکس منظر عام پر آتے ہی کر دیتے۔2014سے خود کو چور اور ڈاکو کہلوارہے،اور برداشت کر رہے ہیں۔ اس لئے کہ انہیں یقین ہے،پی ٹی آئی کی حکومت ناتجربہ کار ہے، نااہل ہے۔اپنے بلند بانگ وعدے پورے نہیں کرسکتی، اس کے چاروں طرف مافیاز موجود ہیں،کابینہ کے سامنے صرف وہ فائل آتی ہے جو مافیا بھیجتی ہے۔بعض واقعات میڈیا پر رپورٹ ہو چکے ہیں۔جہانگیرترین کا نام بھی مافیاز کی لسٹ میں موجود ہے۔خود ہی ایک دن زمین بوس ہو جائے گی۔یہ جو پی ڈی ایم کا پلیٹ فارم ہے وہ خود ہی کہنے لگا ہے کہ ہمارا جھگڑا ایسٹبلشمنٹ سے نہیں، حکومت سے ہے۔ایسٹبلشمنٹ سے گلے شکوے ہیں جو اپنوں سے کئے جاتے ہیں۔اِنَّ لِلّٰہِ و انَّ اِلَیْہِ راجِعُون o
عوام کو ہر حال میں صبر کرنا پڑے گا۔جو لائے ہیں وہی ہٹائیں تو ان کی مرضی۔اپوزیشن صبر کرنے پر راضی ہے۔مارچ کے پہلے ہفتے میں بقول وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سینیٹ کی آدھی نشستوں پر صوبائی اسمبلیا ں اپنے نمائندے سینیٹ کے منتخب کریں گی اور عمران خان جیتیں گے۔اسے آپ خوش فہمی کہیں یا ایسی پیش گوئی سمجھیں جو اظہر من الشمس ہے۔گلگت بلتستان کے انتخابات پی ڈی ایم دیکھ چکی ہے۔ چیئرمین نیب کے خلاف عدم اعتمادکا معرکہ سب کو یاد ہے۔یہی وجہ ہے چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری سے نون لیگ کی نائب صدر مریم نواز پوچھ رہی ہیں ”نمبر کتنے ہیں؟شو کرو!“، پی پی پی کے رہنماقمرالزمان کائرہ جواب دیتے ہیں:”عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو جائے تب بھی حکومت اپنی آئینی مدت مکمل نہیں کرتی“۔لیکن ایسا کہتے وقت یہ نہیں یاد دلاتے کہ یہ2008 سے پہلے کی بات ہے۔ تازہ ترین میڈٖیااطلاعات سے معلوم ہوا ہے پی پی پی پنجاب سے ایک سیٹ کے لئے نون لیگ سے مدد مانگ رہی ہے۔شاید یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ کا چیئرمین بنانے کا ارادہ ہے۔یعنی پنجاب اسمبلی میں ان کے پاس اتنے ارکان نہیں جو ایک سینیٹر جتوا سکیں۔اعلیٰ قیادت اس کا الزام جسے چاہے دے مگر سندھ میں اپنی کارکردگی کا وقتاً فوقتاًجائزہ بھی لینا ضروری ہے،لیاری سے بلاول بھٹو زرداری کا ہار جانا چونکا دینے والی بات ہونی چاہیئے تھی۔لیاری کی شکایات دور کرنے کے لئے خصوصی اقدامات کئے جانے چاہیئے تھے۔ اشک شوئی کی تھوڑی بہت کوشش کی گئی ہے مگر اس سے زیادہ کی ضرورت تھی۔لیاری پی پی پی کا گڑھ سمجھی جاتی تھی۔لیاری کی محبتیں جیتنا ضروری تھا۔ سب حلقے ایک جیسے نہیں ہوتے۔یہ حقیقت فراموش نہ کی جائے کہ موجودہ حالات میں سینیٹ کے انتخابات ملکی سیاست کے لئے اہم موڑ ثابت ہوں گے۔ اپوزیشن جو دعوے کر رہی ہے ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے پی ٹی آئی یا ان کے اتحادیوں کی بڑی کھیپ نے پیسے بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اور پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت تک یہ اطلاع پہنچ گئی ہے،چنانچہ اس کی پوری کوشش ہے کہ سینیٹ کے اتخابات ’شو آف ہینڈز‘ سے منعقد کرائے جائیں تاکہ پارٹی فلور کراسنگ کے نام پر ان کی پارٹی ایکشن لے سکے۔اور انہیں اسمبلی کی رکنیت سے محروم کردے۔جس کے انہوں دام وصول کر لئے۔
دوسری جانب حکومت کے ترجمان کہہ رہے ہیں، سینیٹ میں انہیں معقول تعداد حاصل ہوجائے گی، قانون سازی کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ دور ہو جائے گی۔اوراگلی نصف مدت میں پی ٹی آئی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے گی۔ عوام کا ایک ہی بنیادی مطالبہ ہے مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کیا جائے۔وزیر سے براہ راست ٹیلی فون رابطے میں بھی یہی سوال چھایا رہا۔رواں سال تواتر سے یوٹیلٹی بلوں میں اضافہ دیکھ کر یہ کہنا مشکل ہے کہ حکومت مہنگائی پر قابو پا لے گی۔وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن مستعفی ہونے کی مشروط پیشکش کر کے گیند اپوزیشن کے کورٹ میں پھینک دی ہے مگر اتنی بھاری شرط ماننا انسانی فطرت کے منافی ہے۔اگر اپوزیشن مال جمع کرتے وقت یہ سوچتی کہ اسے ایک دن یہ تمام دولت واپس کرنی ہے تو جمع ہی کیوں کرتی؟انہوں اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق قانون بھی بنالئے تھے۔بیرون ملک سے بھیجی گئی ٹی ٹی کے بارے پوچھ گچھ نہ ہونے کا قانون ایک ثبوت کے طور پر حکومت پیش کرتی ہے مگر حکومت سمجھتی ہے جس حد تک اپوزیشن چلی گئی تھی اس کا تحفظ ان کے نرم و نازک قوانین کے بس سے باہر ہے۔پھر عدالتی موڈ بھی تبدیل ہوا ہے۔آئین اور قانون کا ذکر سنجیدگی سے ہونے لگا، جبکہ پہلے ساری ہمدردیاں تاجروں کے لئے وقف تھیں۔مگرابھی بھی عوام جو مناظر دیکھنا چاہتے ہیں وہ مرحلہ نہیں آیا۔تاہم 30احتسابی عدالتوں کی تشکیل کے لئے نوٹیفکیشن جاری ہوگیا ہے۔وزارت قانون نے ہدایات جاری کر دی ہیں۔بی آر ٹی کے خلاف نیب اور ایف آئی اے کو تحقیقات سے یہ کہہ کر روک دیا ہے،کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ قیاس آرائیوں پر مبنی تھا۔حکومت کو حتمی فیصلہ آنے تک کچھ سکون مل جائے گا۔لیکن سڑک پر چلتے کسی شخص سے گفتگوکے دوران پوچھا جائے زندگی کیسے گزر رہی ہے؟ اس کے منہ سے مہنگائی کے خلاف وہ سب کچھ سنا جا سکتا ہے جسے مہذب زبان میں کہنا ممکن ہے، لیکن اگر مہنگائی کا حل آنے میں زیادہ دیر ہوئی مہذب لہجے غیر مہذب الفاظ کی جگہ غلیظ گالیاں آنے کا اندیشہ ایک حقیقت بن سکتا ہے۔فیصلہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کو ہی کرنا ہے کہ اسے کیا پسند ہے؟ مہذب انداز گفتگو یا ناگوار گالیاں؟

اپنا تبصرہ بھیجیں