قائدحزب اختلاف سینیٹ
پی پی پی کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی نے30سینیٹرز کے دستخطوں سمیت قائد حزب اختلاف کے عہدے کے لئے درخواست جمع کرا دی ہے اوردستخطوں کی جانچ پڑتال کے بعد نوٹیفکیشن بھی جاری ہوگیا۔پی ڈی ایم (باقی ماندہ)کے نون لیگی امیدوار اعظم نذیر تارڑتھے۔ جبکہ جے یو آئی بھی چاہتی تھی یہ عہدہ اسے ملے۔اس اقدام کونون لیگ نے انتہائی صدمہ قرار دیاہے،شدیدتنقید کی ہے۔ پنجاب نون لیگ کے صدر رانا ثناء اللہ نے یوسف رضا گیلانی کو”سلیکٹڈ“اپوزیشن لیڈر کہا ہے۔ واضح رہے ”سلیکٹڈ“کی اصطلاح پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے قومی اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کے فوراً بعد متعارف کرائی تھی اور اسے موجودہ سیاست میں ایک معیوب، منفی اور ناپسندیدہ کردار کے طورپر لیا جاتا ہے۔پی پی پی نے ابھی اس تبصرے کا جواب نہیں دیا، صرف اتنا کہا ہے کہ پارٹی مشاورت کے بعد پی ڈی ایم کے اجلاس میں جواب دیں گے۔ میڈیا بھی اس اقدام کو سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے یہی کہہ رہا ہے کہ پی ڈی ایم کی دونوں بڑی پارٹیوں نے اپنی راہیں جدا کر لی ہیں۔پی پی پی ان ہاؤس تبدیلی کے سوا کوئی دوسری حکمت عملی بالخصوص سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کو ملکی سیاست کا خاتمہ کہتی ہے اور پی ڈی ایم کے ہر اجلاس میں اپنایہی مؤقف دہراتی چلی آرہی ہے۔ملکی تاریخ بھی اس مؤقف کی تائیدکرتی ہے۔ 9ستاروں کے نام نے شہرت پانے والے اتحاد کا مرکزی نعرہ ”نظام مصطفیٰ“کا نفاذ اور بربنائے انتخابی دھاندلی نئے انتخابات کا انعقاد تھا۔نتیجہ 11سالہ مارشل لاء کی صورت میں نکلا۔ (آج بھی پی ڈی ایم یہی نعرہ لگا کر میدان میں اتری ہے)۔نون لیگ اور جے یو آئی کسی بڑے سیاسی تصادم کو حکومتی تبدیلی کی بنیاد بنانا چاہتی ہیں۔پارلیمنٹ سے مستعفی ہونا اور اسلام آباد میں دھرنادیناان کا سیاسی ایجنڈا ہے۔اس کے برعکس پی پی پی پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے آگے بڑھنے کو ملک کے لئے زیادہ مناسب سمجھتی ہے۔پارلیمنٹ کو سیاسی قوت قرار دیتی ہے،اس قوت کے بغیر پی پی پی برملا کہتی ہے اپوزیشن کا ٹھکانہ جیلیں ہوں گی۔نون لیگی قیادت پاکستان کی جیلوں میں قید کاٹنے کی عادی نہیں۔ بیرون ملک جانے کے گر جانتی ہے۔پہلے جدہ میں قیام کیا،اب لندن میں مقیم ہے۔استعفے نواز شریف کے ہاتھ میں دینے کی شرط کے یہی معنے ہیں۔ اب مبصرین میں سے بیشتربھی یہی سمجھتے ہیں کہ دھرنے کا مقصد مریم نواز کیلئے بیرون ملک روانگی کے لئے راستہ ہموار کرنا ہے۔ مریم نواز ایک پیچیدہ بیماری کا ذکر کر چکی ہیں، جو اسی سمت واضح اشارہ ہے۔ نون لیگ کہ دوسرے درجے کی قیادت بھی مریم نواز کی اس سوچ کے ساتھ نہیں۔مینار پاکستان پر لیگی کارکنان کا نہ پہنچنا اسی ناراضگی اور اختلاف کا ثبوت ہے۔دونوں بڑی پارٹیوں کے لئے احتجاجی ایجنڈے پر چلنے کے لئے مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی قبول کرنے کے پیچھے ایک ہی مجبوری کارفرما ہے کہ مولانااپنی جمیعت کے کارکنان کو سڑکوں اور جلسہ گاہوں میں لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن قائد حزب اختلاف کی سیٹ ہاتھ سے نکل جانے کے بعد یہی لگتا ہے کہ اس بار نہ نون لیگ کو کچھ حاصل ہوا اور نہ ہی جے یو آئی کوئی سیاسی کامیابی حاصل کر سکی۔اس مرتبہ مولاناکے پاس تاحال کسی ضامن کو آتے جاتے بھی نہیں دیکھا گیا۔ اب جو کچھ کرنا ہے مولانا نے اپنے بل پر کرنا ہے اور سب کے سامنے کرنا ہے اور ان کے پاس 6،7ماہ کی مہلت موجود ہے۔گزشتہ 6ماہ کی بھاگ دوڑ کی بیلنس شیٹ ان کے سامنے ہے۔سینیٹریوسف رضا گیلانی کے قائد حزب اختلاف بنتے ہی لیگی قیادت نے جس غم و غصے کااظہار کیا ہے اس سے یہی نظر آتا ہے کہ انہیں شدید صدمہ پہنچا ہے۔پی ڈی ایم کے بارے ان کے دیرپا سیاسی قوت ہونے کے دعووں پر ضرب لگی ہے۔ان کے باہمی اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے(اگرچہ اعتمادپہلے بھی کمزور اور واجبی سا ہی تھا)۔ ویسے بھی جب قیادت منقسم الخیال ہو، سوچ، حکمت عملی، اور اہداف یکساں نہ ہوں، کارکنان کے دلوں میں دیگر اتحادی جماعتوں کیلئے کوئی جگہ نہ ہو، ساری زندگی ایک دوسرے کو دیکھتے ہی مخالفانہ نعرے لگانا ان کی رگوں میں رچ بس گیاہو تو اوپری سطح کا کوئی بھی اتحاد نہ دیرپا ہوسکتا ہے اور نہ ہی مضبوط کہلا سکتا ہے۔آج ہر لیڈر کی زبان پر ایک جیسی شکایت ہے۔ دبے لفظوں سب کہہ رہے ہیں:”ہمیں تو پہلے دن سے اندازہ تھا کہ پی پی پی اس کے سوا اور کچھ نہیں کرے گی“۔سائنسی اعتبار سے دیکھا جائے تب بھی دھاتوں جوڑنے کے لئے سولڈر کا انتخاب ہم مزا ج دھات سے کیا جاتا ہے،اسی مصداق انسانی اتحاد اگر متضاد سوچ کے حامل افراد سے کیا جائے تو ناپائیدار ہوتا ہے۔پی پی پی اور نون لیگ کے درمیان قدر مشترک تلاش کرنا آسان نہیں۔اختلافی عناصر کی ایک لمبی چوڑی فہرست منٹوں میں بن سکتی ہے۔آج لیگی رہنما”پیٹھ میں چھرا گھونپنا“ اور”بیوفائی“ جیسے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے اپنے غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں،کچھ دن پہلے پی پی پی کے قائد آصف علی زرداری نے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس خطاب کے دوران ایسی ہی شکایات کی تھیں، جس کا نون لیگی قیادت نے برا منایا تھا۔متضاد مزاج کی حامل پارٹیاں کسی عشایئے یا ظہرانے جیسی محفلوں تک مل بیٹھیں تو ہنسی خوشی وقت گزارنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جیسے نواب زادہ نصراللہ خان کی حلیم پارٹی میں کبھی بدمزگی پیدا نہیں ہوئی، اور انتخابات میں کبھی مسکراہٹ
دیکھنے کو نہیں ملی۔سیاست اسی کانام ہے۔جو بھگدڑ میں گرگیا کچلا جاتا ہے۔پی پی پی اور نون لیگ میں سے جس نے قطار سے نکل کر ہاتھ بڑھایا”ہما“ اسی کے سر بیٹھنے کی عادی ہے۔ ”باپ“ کی شفقت جسے مل گئی،سکون کے لمحات اسی کے ہوں گے۔اب ایک دوسرے کو کوسنے کی بجائے مناسب ہو گا ملکی سیاست کے تیور دیکھ کر آئندہ کا لائحہ عمل بنایا جائے۔جذباتی فیصلے دوسروں پر مسلط کرنے کا انجام ہمیشہ مدنظر رہے، جب بھی اسے پس پشت ڈالا گیا، نتیجہ توقعات کے برعکس نکلا۔عوام کو سڑکوں پرلانے کی حکمت عملی میں سقم اور ابہام کی گنجائش نہیں ہوتی۔پی ڈی ایم اپنی حالیہ ششماہی تحریک کے مثبت اور منفی پہلو سامنے رکھے، کامیابی/ناکامی کا جائزہ لے، اسباب و علل پر سنجیدہ بحث کرے۔آئندہ جلد بازی سے گریز کیا جائے۔ہتھیلی پر سرسوں اگانے کی ضد تو کی جا سکتی ہے مگرعملاً سرسوں کے اگنے میں وقت لگتا ہے۔ ہر دوسرے دن حکومت کے گھر جانے کے عاجلانہ دعووں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔


