یہ پارٹیوں کی لڑائی نہیں‘اسے بقاء کی جنگ سمجھیں
قدرت کا قانون ہے جانداروں کے درمیان ہر وقت بقاء کی جنگ (survival of the fittest)جاری رہتی ہے۔کمزور آہستہ آہستہ معدوم ہو جاتے ہیں۔انسانی معاشروں میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔پاکستان میں آج کل حکومت اور اپوزیشن آستینیں اور تیوری چڑھائے نظر آتے ہیں یہ اسی کشمکش کا اظہار ہے۔ تعلیم کی کمی اور بعض دوسرے عوامل کی بناء پراسے انفرادی لڑائی سمجھاجارہا ہے۔میڈیابھی اسے وسیع تناظر میں دیکھنے کی بجائے عمران خان اور شریف فیملی کی لڑائی کے طور پر پیش کرتا ہے۔ٹی وی ٹاک شوز میں بھی یہی رجحان پایاجاتا ہے۔ماضی میں کہا جاتا تھاپاکستان کی سیاست دو کیمپوں میں بٹی ہوئی ہے،ایک کیمپ بھٹوکو پسند کرتاہے اوردوسرا بھٹو مخالف گروپ ہے۔نواز شریف کو بھٹو مخالف فکر کی علامت کہاجاتا تھا۔آج اس کشمکش کی شکل تھوڑی سی تبدیل ہوگئی ہے،عمران خان دونوں سیاسی خاندانوں کو پچھاڑ کر سامنے آگیا ہے۔ماضی میں بھٹو خاندان یا پی پی پی مخالف اتحاد تشکیل دیئے جاتے تھے آج عمران خان یاپی ٹی آئی مخالف اتحاد جنم لیتے ہیں۔پہلے 9ستاروں پر مشتمل پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) بناکرپی پی پی کوہرایا جاتاتھا اور گزشتہ برس یہی کام پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا نام لے کر کیاگیا۔اس میں نو ستاروں کی باقیات کے ساتھ پی پی پی کی تیسری نسل بھی شامل ہے۔لیکن نو ستاروں یا آئی جے آئی جیسے انتخابی اتحادکاعلان نہیں کیا گیا۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ابھی ملک گیر سطح پر انتخابات کی فضاء نظر نہیں آتی۔ گلگت بلتستان، آزاد کشمیراور ضمنی انتخابات کی نوعیت مختلف ہے۔ حیران کن حقیقت یہ ہے کہ شریف خاندان کو ہرانے کے لئے کبھی کوئی اتحاد نہیں بنا۔شریف فیملی پرنوازشات کی بارش جبکہ بھٹو فیملی پر قہر برسا۔پی پی پی کے بانی چیئرمین اور ان کی جانشین صاحبزادی کوسیاسی منظر سے ہٹانے کے لئے عالمی سطح پر سازش ہوئی، ذوالفقارعلی بھٹو کو قتل کے مقدمے میں جو سزائے موت سنائی گئی وہ فیصلہ آج تک عدالتی نظیر نہیں بن سکا۔محققین دونوں واقعات میں امریکہ اور پاکستانی سہولت کار ملوث بتاتے ہیں۔اس کے معنے با آسانی یہ لئے جا سکتے ہیں کہ پاکستان میں جاری سیاسی کشمکش صرف ملکی حدود تک محدودنہیں بلکہ اس میں سامراجی قوتیں بھی حصہ دار ہیں۔پاکستان میں یہ قوتیں پس پردہ رہیں مگر ہمسایہ ملک افغانستان میں اپنی مسلح ا فواج سمیت اتریں۔اور 30برس تک عوام سے برسر پیکار رہیں۔ہمارے ملک میں گزشتہ چار دہائیوں میں سیاست سے علم و دانش کی جس بے رحمانہ انداز میں بیخ کنی کی گئی اس کا نتیجہ یہی برآمد ہونا تھاکہ آج ہر جگہ بونے دکھائی دیتے ہیں کوئی قدآور شخصیت نظر نہیں آتی۔پاکستان میں روزِ اول سے سامراجی گدھ منڈلاتے رہے۔طویل مسافت طے کرنے اوردہائیوں وقت صرف کرنے کے بعد اس مقام پر پہنچا ہے کہ خطے میں کھل کر کوئی کردار ادا کر سکے۔یہ کہنا اور سمجھنا بیجا نہ ہوگا کہ اس خطے کے دیگر ممالک بھی اپنے تلخ و شیریں تجربات کی روشنی میں آج ایک نیا بلاک تشکیلدے چکے ہیں یا اس کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔امریکی چونچ میں زیتون کی شاخ 1945کے بعد پہلی بار دیکھی جا رہی ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن اقوام متحدہ میں عسکری تعلقات کی بجائے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔یادرہے یہ لب و لہجہ انہوں نے ویت نام سے انخلاء کے وقت اختیار نہیں کیا تھا۔، کابل سے انخلاء کے بعد کیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں 20برس کے دوران جو کچھ کیا دنیا کو پل پل کی خبر ہے۔ذرائع ابلاغ میں جدت اور فراوانی کے باعث امریکہ کچھ چھپانے کی پوزیشن میں نہیں۔امریکہ کل تک قہر اور جبر کی علامت تھا، آج اس کے صدر میڈیا کے روبرو اپنے نقصانات پر روتے دیکھے جارہے ہیں۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دور میں فوجوں کی تعداد کم کرنے کا تمغہ اپنے سینے پر سجانے کے لئے کوشاں ہیں۔ یہ سچ ہے کہ آج دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔فاصلے سمٹ گئے ہیں۔میزائل منٹوں میں کوریا سے نیویارک اور واشنگٹن ایٹمی ہتھیار وں سمیت پہنچ سکتا ہے، اسے قریبی ملک میں ایئر بیس کی ضرورت نہیں۔یہ بات امریکی مقتدرہ کے علم میں ہے۔فرانس کی ناراضگی کی پرواہ کئے بغیر برطانیہ کے اشتراک سے آسٹریلیاکو ایٹمی صلاحیتوں سے لیس آبدوز فروخت کرنے کا معاہدہ کر لیا۔اس مقصد میں اسے کتنی کامیابی ملے گی وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن بظاہر یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔دِلّی نے پارٹنر بننے سے گریز کیا ہے۔کوئی تو سبب ہوگا، کسی نادیدہ خطرے کو بھانپ لیا ہو گا جو امریکی نگاہوں سے اوجھل ہے یا امریکہ اسے دوسرے ز اویہ سے دیکھ رہا ہے۔گرگانِ باراں دیدہ کی طرح آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دائر ے میں بیٹھے ہیں،سب جانتے ہیں جس کی آنکھ جھپکی اس کی خیر نہیں، سب اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ نفسا نفسی کا عالم ہے۔پاکستان کو بھی اپنے مفادات عزیز ہیں۔بڑے نقصانات اٹھانے کے بعد یہ کہنے کا حوصلہ پیدا ہوا:”پرائی جنگ میں شریک نہیں ہوں گے“۔ اس خطے میں موجود کوئی ملک امریکی مفادات کی جنگ میں شریک ہونا پسند نہیں کرے گا۔جاپان پہلے ہی خاموشی سے الگ ہو گیا تھا، بھارت بھی جانتا ہے کہ گھر میں گھس کر مارنا آسان نہیں۔ واضح رہے یہ نیازی فیملی، بھٹو فیملی اور شریف فیملی کے درمیان لڑی جانے والی والی جنگ نہیں، اسے ملکی بقاء کے تناظر میں دیکھا جائے،علاقائی اور خطے کے پس منظر سے الگ ہو کر دیکھنا مناسب نہیں۔گلوبل ویلج میں رہنے والوں کی سوچ بھی گلوبل ویلج جیسی ہونی چاہیئے۔ اب تو اندھیرے میں ایک کلو میٹر تک دیکھنے والے چشمے بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ روشنی کی ضرورت نہیں رہی۔جس دور میں زندہ ہیں،اسی دور کے کے آداب سیکھنے ہوں گے۔آج کاسکندرِاعظم یونان سے گھوڑے پر بیٹھ کر دنیا فتح کرنے کے لئے نہیں روانہ ہوتا۔ اور نہ ہی بلوچستان کے مچھروں کے کاٹنے سے اس کے فوجی ہلاک ہوتے۔پاکستان کے سیاستدانوں کو بھی ماضی بالخصوص
60اور90کی دہائی سے نکلنا ہوگا۔ماضی کے فرسودہ نعرے کارآمد نہیں رہے،راز فاش کرنے کی دھمکیوں میں کوئی جان نہیں۔ امریکہ اپنی پارلیمنٹ کی حفاظت کے قابل نہیں، دوسروں کی حفاظت کیسے کرے گا؟ اپنے سیاہ فام شہریوں کو مساوی حقوق نہیں دیتا،پاکستانی سیاست دانوں کو کیسے دلوائے گا۔برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اقوام متحدہ میں عمران خان کی (10ارب والی)شجر کاری مہم کی تعریفیں کر رہے ہیں، کرکٹ ٹیم نہ بھیجنے کے فیصلے سے بیخبری اور لاتعلقی کااعلان کر رہے ہیں۔پاکستانی سیاست دنیا میں رہتے ہیں، دنیا سے لاتعلقی اختیار نہ کریں۔اپنی بقاء کی جنگ میں دوسروں کی بقاء کا خیال رکھیں۔


