سندھ ہاؤس جدید چھانگا مانگا

اب اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے 24،25ارکان قومی اسمبلی سندھ ہاؤس(اسلام آباد) میں مقیم ہیں۔ان کی حفاظت کے لئے سندھ پولیس کے کمانڈوز کی بڑی تعداد سندھ ہاؤس میں تعینات ہے۔چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زداری نے کہا ہے کہ مذکورہ اراکین کی زندگی خطرے میں ہے، ان کی حفاظت کے لئے ہر ممکن اقدام کریں گے۔ اقلیتی رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے کہا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن پی پی پی کے ٹکٹ پر لڑیں گے اور راجہ ریاض کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر لڑیں گے۔ گویا انہوں نے عملی طور پر پی ٹی آئی کو خدا حافظ کہہ دیا ہے۔ 17ووٹوں کے ساتھ فیصلہ کن کردار اتحادی جماعتوں کے پاس ہے،لیکن انہوں نے ابھی اپنا حتمی فیصلہ نہیں سنایا۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ہمارا جھکاؤ اپوزیشن کی جانب ہے،اور دوسرے لمحے کہتے ہیں ہم نے وزارتوں سے استعفیٰ نہیں دیا،ہم حکومت کا حصہ ہیں۔ اس کی بڑی وجہ پی ٹی آئی کے ارکان کی سندھ ہاؤس میں موجودگی ہے۔داخلی محاذ پر مخدوش صورت حال ہے،اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے کے خلاف آستینیں چڑھائے میدان میں کھڑی ہیں۔ جبکہ انہی دنوں 48 مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ اسلام آباد میں اجلاس ہو رہا ہے،اس اجلاس میں چین کے وزیر خارجہ بھی مدعو کئے گئے ہیں۔ 23مارچ کی تقریبات امسال زیادہ اہتمام سے منائی جارہی ہیں۔کسی ممکنہ ہنگامہ آرائی سے بچنے کے لئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک سمجھوتہ ہوگیا ہے کہ 24مارچ تک کوئی احتجاج نہیں ہوگا،صرف دو طرفہ بیان بازی جاری رہے گی۔مگر سندھ ہاؤس میں باغی اراکین کی موجودگی نے ایک نئے صورت حال پیدا کر دی ہے۔یوں محسوس ہو رہا ہے کہ وفاق اور صوبہ سندھ کے درمیان اختیارات کے حوالے سے سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔کیااس موقعے پر حکومت سندھ ا سلام آباد میں اپنی قوت کا مظاہرہ کرے گی؟یاوفاق باغی ارکان کی بازیابی کے لئے طاقت استعمال کرے گی؟21 مارچ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں مذکورہ اراکین کو لے جانے اور واپسی پر کوئی مشترکہ لائحہ عمل نہ بنایا گیا تو بدمزگی پیدا ہو سکتی ہے اور ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے۔اگر ایساہوا تو ماحول پراگندہ ہوجائے گا اور مہمان بھی کوئی اچھا تأثر نہیں لیں گے۔اغلب امکان یہی ہے کہ حکومت کوئی غلط اقدام نہیں اٹھائے گی۔منحرف اراکین کب نااہل قرار پائیں؟، اور کون انہیں نااہل قرار دے سکتا ہے؟عام طور یہی سمجھا جاتا ہے کہ کسی منتخب عہدیدار(بلدیاتی کونسلر،ایم پی اے، ایم این اے،سینیٹروغیرہ)نااہل قرار دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔اب حکومت کی طرف سے یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ پارٹی کا سربراہ آئین کے آرٹیکل63(1)کے مطابق ووٹ دینے یا نہ دینے کی ہدایت دے سکتا ہے اورسربراہ کی دی گئی ہدایت کے برعکس رویہ اختیار کرنے والارکن ووٹ دینے کا اہل نہیں رہتا۔ اسپیکر اسے ووٹ دینے سے روک سکتا ہے اور اپیکر کی رولنگ کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔جبکہ اس حوالے سے دوسری رائے یہ ہے کہ نااہل قرار دینے کا مجاز صرف اور صرف الیکشن کمیشن ہے۔آج تک ثانی الذکر رائے کو ہی درست سمجھا جاتا ہے۔چونکہ نیا مفہوم موجودہ حکومت کی فکری جدت کا نتیجہ ہے اس لئے اپوزیشن اسے تسلیم نہیں کرتی۔بلکہ وہ تو صدر پاکستان کو بھی وزیراعظم کی کسی ایڈوائس کوماننے سے منع کررہی ہے، اپوزیشن سمجھتی ہے کہ تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں جمع کراتے ہی وزیر اعظم نااہل ہو چکے ہیں۔ اگر اپوزیشن کی یہ توضیح درست مان لی جائے تو رائے شماری کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔20فیصد اراکین ایک قرارداد پر دستخط کرکے جب چاہیں وزیر اعظم کو نااہل کہہ کر گھر بھیج سکتے ہیں، جبکہ آئین میں کسی وزیر اعظم کو گھر بھیجنے اور سیٹ سے ہٹانے کے لئے ایوان کے کم از کم 172 اراکین کو ایوان پہنچ کر با آواز بلند وزیر اعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کرنالازمی ہے،اور گنتی کے ”ناں“ کہنے والوں کے ساتھ کھڑے ہونا بھی آئینی شرط ہے۔ چونکہ اپوزیشن کی رائے حکومتی رائے سے مختلف ہے،اور دونوں بضد ہیں کہ اس کی رائے درست ہے۔ اس لئے مناسب ہوگا کہ حکومت سپریم کورٹ سے اس بارے تشریح حاصل کر لے۔اور اطلاعات کے مطابق حکومت اس حوالے سے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کی تیاری کر رہی ہے، کچھ درخواستیں پہلے ہی عدالت میں دی جا چکی ہیں۔اور آئندہ جب بھی آئین سازی ممکن ہو، اس تشریح کو آئین میں شامل کر لیا جائے تاکہ آئندہ ابہام پیدا کرنے کے امکانات ختم ہو جائیں۔ ماضی میں وفاداریاں تبدیل کرنا بعض اراکین کا مرغوب مشغلہ رہاہے۔اے این پی (سابق این اے پی)کے سربراہ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ جس شخص کے پاس دو سو کروڑ روپے ہوں وہ پاکستان میں اپنی مرضی کی حکومت تشکیل دے سکتا ہے۔یاد رہے ان دنوں مہنگائی نے اس قدر عروج نہیں پایا تھا۔ایک کروڑ روپے ”ضمیر فروشی“ کے لئے معقول رقم سمجھی جاتی تھی۔آج روپے کی قدر گر چکی ہے،179روپے میں ایک امریکی ڈالر ملتا ہے،سونے کے دام بھی کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔یہی وجہ کہ ایک رکنِ قومی اسمبلی کے دام18کروڑ سے 25کروڑروپے تک پہنچ گئے ہیں۔میڈیا اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے25سے28اراکین قومی اسمبلی نے اپوزیشن کو ووٹ دینے کی حامی بھر لی ہے، بلکہ ان میں سے بڑی تعداد گزشتہ کئی روز سے سندھ ہاؤس(اسلام آباد) میں مقیم ہے۔ اور ان کی ویڈیوز بھی میڈیا بار بار دکھا رہا ہے۔ان میں خواتین میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ عام آدمی بڑے دکھ کے ساتھ انہیں سندھ ہاؤس میں مقیم دیکھ رہا ہے، اور سوچ رہا ہے؛ کیا ایسے لالچی اراکین قومی اسمبلی قوم کی قسمت سدھار سکتے ہیں؟نوجوان نسل نے ماضی کے چھانگا مانگا اور بھوربن میں اراکین قومی اسمبلی کی منڈیا نہیں دیکھیں اس لئے انہیں شاید یہ معلوم نہ ہو کہ پاکستان میں قیمتی قدرتی وسائل کی فراوانی کے باوجود معیشت اتنی ابتر کیوں ہے؟بلوچوں کے پیروں تلے ٹنوں سونا، چاندی اور تانبا موجود ہے، مگر بلوچ عوام ننگے پیر ہیں، ان کے جسم پر مناسب لباس نہیں، نہ ہی انہیں کھانے کو صحتمند غذا میسر ہے۔بلکہ انہیں تو پینے کے لئے صاف،شفاف پانی بھی نہیں مل رہا۔ معیاری تعلیم اور روزگار تو ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔بلوچستان کے سمندروں میں غیرملکی ٹرالرغیر قانونی ماہی گیری میں دن رات کھلے عام مصروف ہیں جو نہ صرف سمندری وسائل(آبی غذا) لوٹ کر لے جاتے ہیں بلکہ جاتے وقت مردہ مچھلیوں کی بڑی مقدار سمندر میں پھینک دیتے ہیں، اس سے سمندر میں آلودگی بڑھ رہی ہے۔اس کے نتیجے میں مقامی ماہی گیر نان شبینہ کو ترس رہے ہیں۔عام آدمی ہی پریشان نہیں، پاکستان بھی کشکول اٹھائے قرض کی بھیک مانگ رہا ہے۔چھانگا مانگا کی جدید منڈی سندھ ہاؤس(اسلام آباد) میں لگی ہے، سندھ پولیس کے سینکڑوں کمانڈو چوبیس گھنٹے اس مکروہ منڈی کی حفاظت پر مامور ہیں۔ مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں