حکومت یا کوئی اورتنقیدسے بالاتر نہیں

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوشل میڈیاسے متعلق حکومتی رولز پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے ہم بڑے کلیئر ہیں کہ انسانی حقوق کی خلا ف ورزی نہ ہو۔معزز عدالت نے کہا اگر بھارت غلط کر رہا ہے تو کیاہم بھی غلط شروع کر دیں؟ معزز عدالت نے کہا:یہاں تک کہ اگر عدالتی فیصلے پبلک ہو جائیں تو تنقید پر توہین عدالت نہیں بنتی۔سوال یہ ہے کہ کوئی تنقید سے کیوں خوفزدہ ہو؟تنقید کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ اقتدارکی حوصلہ افزائی ہو۔پاکستان بارکونسل کے اعتراضات مناسب ہیں، یہ رولز بھی مائنڈ سیٹ کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ایک چیز یادرکھیں، یہاں آئین ہے، جمہوریت ہے۔جمہوریت کے لئے کڑی تنقید بڑی ضروری ہے۔جب قانون میں سقم چھوڑے جائیں گے تو مسائل بھی پیدا ہوں گے۔اکیسویں صدی میں تنقید پر پابندی لگائی جائے گی تو اس کا نقصان ہوگا۔البتہ (میڈیا پر کی جانے والی تنقید سے) شفاف ٹرائل متأثر نہیں ہونے چاہئیں۔ عدالت کو بتایاگیاہے کہ پی ٹی اے نے بھی پاکستان بار کونسل اور اسلام آباد بار کونسل سے اس ضمن میں تجاویز مانگ لی ہیں۔ پاکستان واحد ملک نہیں جہاں اس قسم کے سوالات نے سر اٹھایاہے،امریکہ ہر لحاظ سے مثالی ملک ہے؛ ترقی یافتہ ہے، ہر شعبے میں دیگر ملکوں سے آگے ہے۔جمہوریت کا تسلسل کبھی نہیں ٹوٹا،مگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ حاضر ڈیوٹی صدر ہونے کے باوجود انتخابی نتائج ماننے کو تیار نہیں۔یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس دھاندلی کے ثبوت ہیں، مقدمات کی پیروی کرنے کے لئے قابل وکلاء بھی موجود ہیں لیکن عدالتیں سماعت کے لئے تیار نہیں۔ان کی گفتگو سے لگتا ہے کہ عدالتی نظام میں کوئی نقص ہے، لیکن وہ یہ کہنے کی ہمت نہیں کر رہے کہ خرابی باہر نہیں، پارلیمنٹ کیاندر ہے جو مطلوبہ قانون سازی سے دانستہ گریزاں ہے۔
یہی حال پاکستان کا ہے، اصل خرابی پارلیمنٹ میں ہے جو درست اور مطلوبہ معیار کی قانون سازی سے جان بوجھ کر بھاگ رہی ہے۔اس کی ایک مثال نیب کا ادارہ ہے۔5سال پی پی پی نے حکومت سنبھالی، اس نے انتہائی خاموشی سے اسمبلی سے بالا بالا،18ویں ترمیم متفقہ طور پر منظور کر لی۔لیکن نیب قوانین میں تبدیلی لانے سے مسلم لیگ نون نے انکار کر دیااور سب سے زیادہ نیب کے خلاف واویلا وہی مچا رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ کل چھوٹی سی ترمیم کے راضی نہیں تھی مگر آج پورے ادارے کا خاتمہ چاہتی ہے؟جبکہ ادار ے کا چیئرمین(جسٹس ر جاوید اقبال) دونوں پارٹیوں نے باہمی مشاورت سے مقرر کیا گیا تھا۔ دونوں پارٹیاں یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ اب معروضی تقاضے تبدیل ہو گئے ہیں۔کل جس وجہ سے وہ کارآمد تھے آج وہ وجہ یا ضرورت باقی نہیں رہی۔ایران جس مشکل راستے پر چل رہا ہے،پاکستان وہ طے کر چکا ہے۔60کی دہائی میں پاکستان میں چین کے سفارت خانے کے قریب سے گزرنا جرم تھا، آج ”ہمالہ سے بلند اور سمندروں سے گہری دوستی“سرکاری نعرہ بن چکا ہے۔کل کا چین ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ کسی ورکر کی جیب میں ”لال کتاب“نظر نہیں آئے گی۔کل کے چین میں اس کا درس ہر ورکر پرلازم تھا۔نہ جانے کیوں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت آج بھی 80اور90کی دہائی میں زندہ رہنے پر بضد ہے۔2021میں داخل ہونے کو ہے مگر انہیں یقین ہے کہ آج بھی وہ پنڈی والوں کی مجبوری ہیں۔ جبکہ پنڈی سے دیا گیا جواب:۔”قانونی معاملات عدالتوں میں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل کئے جائیں“۔محمد زبیر عمرترجمان کی حیثیت سے عرصہ ہواشریف فیملی تک پہنچا چکے ہیں۔شریف فیملی ابھی تک کوشش کر رہی ہے کہ اس ”جواب“میں کم از کم ایک آدھ چھوٹی موٹی ترمیم کر دی جائے۔لیکن شریف فیملی جب تک بازو مروڑنے کی حکمت عملی ترک نہیں کرے گی ایسا کچھ بھی ممکن نہیں۔بی بی سی کے ہارڈ سوالات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہوا کارخ تبدیل ہو گیا ہے۔لگتاہے جو کچھ عرصہ پہلے اڑتی چڑیا کے پر گن لیا کرتے اب ان کی بصارت کمزور ہو گئی ہے،چڑیا نظر آنا بند ہوگئی ہے۔
امیدپر دنیاقائم ہے، خط افلاس سے نیچے رہنے والی کثیر آبادی امید کے سہارے زندہ ہے۔73 سال بعدان میں سے دو چار درجن کو کچھ شہروں کے لنگر خانوں میں قیام و طعام کی عارضی سہولت مل گئی ہے۔ابھی ایک کروڑ ملازمتوں اور 50لاکھ گھروں کی فراہمی باقی ہے۔پرانی کہاوت ہے رب بھوکا اٹھاتا ہے مگر پیٹ بھرنے کے بعد سلاتا ہے۔ اگرپاکستان کی نصف سے زائد آبادی اسے قسمت کا لکھاجان کر برداشت کر رہی ہے تو مٹھی بھر سیاسی قائدین سے امید کا دامن چھوڑنے کی درخواست کیوں کی جائے؟ وہ جانتے ہیں جب کشتی ثابت وسالم تھی انہیں ساحل کی تمنا نہیں تھی، لیکن اب شکستہ کشتی پر وہ سمجھتے کہ ساحل تک نہ سہی کسی جزیرے تک ضرور پہنچ جائیں گے۔برطانیہ بھی ایک جزیرہ ہی تو ہے۔میڈیا کی وساطت سے علم ہواہے کہ چچا نے اپنی بھتیجی کو جیل جاتے وقت دو مشورے دیئے ہیں؛ ایک یہ کہ بند گلی میں داخل نہ ہونا اور دوم یہ کہ استعفے دینے میں جلدی نہ کرنا۔ آنے والے دنوں میں معلوم ہوجائے گاکہ مشوروں کو کتنی پذیرائی حاصل ہوئی؟فی الحال نون لیگی قیادت عوام کو یقین دلارہی ہے کہ 13دسمبر کو سرپرائز دیں گے۔ایک ہفتے کی بات ہے گزرنے میں دیر نہیں لگے گی۔لیکن وقت کا تقاضہ ہے کہ اتنی قلیل المدت پیش گوئیاں نہ کی جائیں۔اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ اصلاح کی ہر آئینی ادارے کو ضرورت ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کا انسانی حقوق بارے فیصلہ سب کیلئے چشم کشا ہونا چاہیئے۔غلطیوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔سب سوچیں کہاں کہاں سقم ہیں؟ پھر سر جوڑ کر بیٹھیں اور تمام سقم دور کرنے کیلئے کوئی قابل عمل لائحہ عمل طے کریں۔ملک کی آدھے سے زائد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ اگر انہیں باوقار زندہ رہنے کے مواقع فراہم نہ کئے گئے تو اللہ کا عذاب اپنا دائرہ وسیع کرنے میں دیر نہیں لگائے گا۔یاد رہے اللہ کاعذاب ہمیشہ حکمرانوں کے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے مگر عوام کو ان کی لاتعلقی اورطویل خاموشی کی سزابھی ضرور ملتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں