عام آدمی کے دکھ کون دور کرے؟

پاکستان کاآئینی نام ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ ہے۔ اصولاً عام آدمی کو جمہوری مملکت میں بنیادی اہمیت اور مرکزیت حاصل ہوتی ہے مگر عملاً پاکستان میں مملکت کا سب سے زیادہ نظرانداز ہونے والا عام آدمی کے سوا دوسرا کوئی نہیں ہوتا۔ ملک کے تمام بڑے شہرکچرے کے ڈھیر بنے ہوئے ہیں،گٹر ابل رہے ہیں،گلیاں گندے پانی کی مستقل گزرگاہ کا درجہ اختیار کر چکی ہیں۔میڈیا اکثر و بیشتر ایسے مناظر دکھایا ہے جہاں مساجد میں نمازی گھٹنوں گھٹنوں گندے پانی سے گزر کر مسجد پہنچتے ہیں۔پینے کا پانی کئی دہائیوں سے عام آدمی میلوں کی مسافت طے کر بمشکل گھر لاتا ہے۔عورتیں، بچے، بوڑھے پانی کے برتن اٹھائے پانی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔سرکار نے یہ کام ٹینکر مافیا کے سپرد کر دیا ہے، خود نوٹ گننے میں مصروف ہے۔جس ملک کے شہروں کی یہ حالت ہو،وہاں دور دراز علاقوں میں بسنے والے شہریوں کو کون پوچھے گا؟ ہر شخص جانتا ہے کہ جب سانس لینے کوصاف ہوا اور پینے کو صاف پانی نہ ملے تو انسان بیمار ہو جاتا ہے۔سوچنے کی بات ہے جو ریاست صاف ہوا اور صاف پانی فراہم کرنے کی سکت نہیں رکھتی وہ بیماروں کو علاج معالجے کی سہولیات کیسے فراہم کر سکتی ہے؟ ”صحت کارڈ“کے ذریعے ایک خاندان کو10لاکھ روپے تک سالانہ علاج کرانے کی سہولت مل جاتی ہے مگر یہ کارڈ اس وقت کام آتا ہے جب مریض کو اسپتال میں داخل کیا جائے۔روز مرہ کی عام بیماریوں نزلہ،زکام، کھانسی، بخار،آشوب چشم اورجلدی بیماریوں کی صورت میں صحت کارڈ کام نہیں آتا۔ تمام اخراجات مریض یا اس کے خاندان کو اپنی جیب سے ادا کرنے ہوتے ہیں۔ادویات میں ایک سے زائد مرتبہ اضافہ ہوچکا ہے، غذائی اشیاء دن بدن مہنگی ہوتی رہی ہیں،قوت خرید میں کمی آئی اور تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا، مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی اس میں سرے سے سکت نہیں رہی۔ان حالات میں عام آدمی پر جو گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا شعبہ سرکار نے کئی دہائیں سے نجی مالکان کے سپرد کر دیا ہے،بسیں غائب ہو گئی ہیں اور عام آدمی چن چی(موٹر سائیکل رکشہ)میں سفر کرنے پا مجبور ہے۔عام آدمی لاوارث دکھائی دیتا ہے۔مافیاز کوحکومتی اور اپوزیشن والے دو خانوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔اپوزیشن والی مافیاز میں پرانے مقدمات پر پوچھ گچھ کی جاتیہے نئے مقدمات میں دونوں کو یکساں نوعیت کی چھوٹ حاصل ہے۔وزیراعظم عمران خان اور ان کے ترجمان دن رات اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں: اول یہ کہ ”نیب“ ہم نے نہیں بنایا، دوم اس کے چیئرمین کی تقرری مسلم لیگ نون اور پی پی پی نے باہمی مشاورت سے کی ہے۔سوم یہ کہ پی پی پی کی قیادت پر مقدمات نون لیگ نے بنائے تھے، اور چہارم یہ کہ نون لیگ پر تمام مقدمات پی پی پی نے بنائے تھے۔البتہ ٹی ٹیاں (ٹیلی گرافک ٹرانسفر)غیر قانونی رقوم کی منتقلی کے لئے استعمال کئے جانے کا انکشاف موجودہ حکومت اپنے سر لیتی ہے کہ پاپڑ والوں، فالودے والوں،ٹیکسی والوں اور بعض مُردوں کے بینامی اکاؤنٹس موجودہ حکومت کے دور میں سامنے آئے۔ سیاسی منظرنسامہیہ ہے کہ اپوزیشن حکومت کو سلیکٹڈ کہتی ہے اور اسے حکومت نہیں مانتی،جواباً حکومت اپوزیشن کو چور اور ڈاکو کہتی ہے،(ماضی میں نون لیگ اور پی پی پی والے بھی ایک دوسرے کو انہی القاب سے نوازتے رہے تھے)گویا حکومت اور اپوزیشن نے اپنے لئے نئی (سیاسی/غیر سیاسی) مصروفیات ڈھونڈ لی ہیں۔دونوں کے پاس عام آدمی کی طرف دیکھنے کے وقت نہیں۔کچھ عرصہ کے لئے اپوزیشن نے مختلف شہروں میں چھوٹے بڑے جلسے منعقد کئے اور جگہ جگہ اعلان کیاگیا ”فلاں تاریخ تک سلیکٹڈ حکومت مستعفی ہوکر گھر چلی جائے گی، ورنہ تاریخ میں توسیع کر دی جائے گی۔حکومت کو گھر بھیجنے کے دو کارڈ اپوزیشن کے پاس اب بھی موجود ہیں،ان میں سے ایک پارلیمنٹ سے استعفے دینا اور دوسرااسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اوراسلام آباد میں دھرنا بتایا جاتا رہا ہے۔جوں تاریخ قریب آئی، اس مرحلے کے نت نئے پہلو سامنے آنے لگے۔نون لیگ کے دو ارکان قومی اسبلی کے استعفے پراسرار طور پر اسپیکر قومی اسمبلی کے دفتر پہنچ گئے، دفتر نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر مستعفی اراکین کو 7یوم میں دفتر آ کر تصدیق یا تردید کرنے کے لئے خط لکھ دیا۔نہ آنے کی صورت میں ”ہاں“ سمجھنے کاعندیہ بھی دے کر ان خالی سیٹوں پر ضمنی انتخابی کارروائی کا اشارہ بھی دے دیا۔معزز اراکین نے استعفے اسپیکر سیکریٹیریٹ پہنچے پر روایتی حیرت کا اظہار کیا اور پہلی فرصت میں واپس لینے کسا اعلان کردیا۔”دھرنا“ کے حوالے سے نون لیگ کے اہم رہنما رانا ثناء اللہ نے موسمیاتی مشکلات کے پیش نظر 23مارچ/اپریل سے اکتوبر2021تک جانے کی بات کر دی ہے۔جبکہ پی پی پی کے اہم رہنما قمرالزمان کائرہ ”دھرنا“ کی بے ضرر قسم بیان کر رہے ہیں۔جس میں ”بیٹھنے“ کا لفظ شامل نہیں۔ لگتا ہے کہ پیر پگارا کی مجوزہ ٹریک ٹو پالیسی اپنا راستہ بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کوٹ لکھپت جیل سے باہر آکر اپنا ”کردار“ ادا کریں گے اور ان کے صاحبزادے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز ان کی صوبائی سطح پر معاونت کریں گے۔ بقول محمدعلی درانی عدالتیں اس دوران اپنا ”کام“ کرتی رہیں گی۔حکومت اور اپوزیشن کی جان استعفوں، جلسوں، لانگ مارچ اوردھرنوں سے چھوٹے گی،دونوں شاید۔۔ ادھر سے فرصت ملنے کے بعد۔۔ عوام کے مسائل پر سوچ بچار کے قابل ہو جائیں۔7جولائی سے دونوں نے عوام کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ ایک نے پی ڈی ایم بنالی اور دوسرے ”کورونا، کورونا“کہنے میں مصروف رہے۔ضمنی انتخابات کے بعد سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے اگر شکوک و شبہات ہوئے،دور ہوجائیں گے۔ٹریک ٹو پالیسی آگے بڑھی تو اس کے نتیجے میں پرامن گرینڈ نیشنل مذاکرات کی کوئی قابل قبول صورت نکل آئے گی۔ اسلام آباد کی سڑکوں پرمار دھاڑ کی نوبت نہیں آئے گی۔ مناسب ہوم ورک کیا جاتاتو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں