سکھو ں نے لال قلعہ پر جھنڈا لہرادیا
بھارت کے یوم جمہوریہ پر سکھ کسان رکاوٹیں توڑ کر دارالحکومت میں داخل ہوئے اور بھارتی فوج کے مقابل ٹریکٹر پریڈ کرتے ہوئے لال قلعہ پر دھاوا بول دیا۔مظاہرین نے پولیس سے دو بدو لڑائی لڑتے ہوئے لال قلعہ کا کنٹرول حاصل کرکے خالصتان کا جھنڈا لہرا دیا۔ہزاروں کسان فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے دہلی شہر میں داخل ہوئے۔انکا کہنا ہے کہ مودی سرکار کے نافذ کردہ سیاہ قوانین کے خلاف احتجاج نہ کیا تو ہمارے بچے بھوکے مر جائیں گے۔وزیر اعظم نریندر مودی کو یوم جمہوریہ کے موقع پر سلامی ادھوری چھوڑ کر گھر جانا پڑا اس لئے کہ کسان ٹریکٹر ریلی تقریب کے مقام ’راج پتھ‘ کے قریب پہنچ گئی تھی۔شہر میں انٹر نیٹ سروس معطل اور میٹرو اسٹیشن بند کر دیئے گئے تھے۔ کسانوں کا احتجاج تین زرعی قوانین کے خلاف ہے، کسانوں کا مطالبہ ہے کہ کسان دشمن قوانین منسوخ کئے جائیں، واپس لئے جائیں۔جبکہ مودی سرکار نے ایک سال کے لئے معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان قوانین میں کسانوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ اپنا اناج اور سبزیاں،پھل وغیرہ حکومت کی منظور شدہ کمپنیوں کے علاوہ کسی کو فروخت نہیں کریں گے۔کسان ان قوانین کو سخت ناپسند کرتے ہیں، ان کی ناراضگی کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ 62ویں روز انہوں نے دہلی کا رخ کیا۔ان کے چہروں پر تھکاوٹ کے آثار نہیں تھے۔ پولیس انہیں لال قلعہ جانے اور خالصتان کا جھنڈا لہرانے سے نہ روک سکی۔پولیس کی پالیسی کو بے بسی کی بجائے مصلحت پر مبنی کہنا زیادہ درست ہوگا اس لئے کہ اپنے عوام پرگولیاں نہیں برسائی جاتیں۔ راستے سے ہٹنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں یہی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے۔امریکی پارلیمنٹ پر حملہ ایسی ہی ایک مثال ہے۔چند ہفتے پہلے ہی دنیا نے یہ منظر دیکھا تھا۔سرکارنے لاشیں نہیں گرائیں،گراتے تو عوام بپھر جاتے ہیں،تاریخ شاہد ہے غضبناک عوام کا سیلاب سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے۔مودی سرکار جانتی ہے،سکھ اقلیت بھارت کی دوسری اقلیتوں سے مختلف مزاج رکھتی ہے۔
بھارت کی پریشانی ہر گزرتے دن بڑھ رہی ہے۔چین ایکچوئل لائن آف کنٹرول(LAC)عبور کرکے اس بھار تی علاقے میں جسے وہ چین کا حصہ سمجھتا ہے صرف داخل ہی ہوابلکہ اس نے بستیاں آباد کرنی شروع کر دی ہیں۔چین نے یہ اقدام اس لئے کیا ہے کہ بھارت نے اپنے آئین میں یکطرفہ تبدیلی کر کے متنازعہ لداخ کو دہلی کے کنٹرول میں لے لیا تھا۔نیپال کو چینی نقشے کا حصہ بنا دیا ہے۔بغیر گولی چلائے اس نے بھارت پر اپنی فوجی برتری ثابت کر دی ہے۔جوڈو کراٹے سے کام لیااور کیلوں جڑے ڈنڈے برسا کر نئی طرز فوج میں متعارف کرادی۔بھاتی فوجیوں کو برفانی جھیلوں میں گرا کر اپنا مقصد حاصل کر لیا۔مودی سرکار نے دعویٰ کیا تھا کہ چین میں گھس کر چین کو ماریں گے، معاملہ الٹ گیا،چینی بھارتیوں کو بھارت میں گھس کر مارتے دیکھے جا رہے ہیں۔اندازوں کی غلطی کا یہی انجام ہوتا ہے۔بھارت اس خطے کی ابھرتی ہوئی معیشت اور کثیر آبادی(ایک ارب کے لگ بھگ) ہونے کے سبب خود کوچین کا ہم پلہ بلکہ برتر سمجھنے کی خوش فہمی میں مبتلاء ہو گیاتھا۔ اپنے آئین کا آرٹیکل 370منسوخ کرنااس کے گلے کا چھچھوندر بن گیا، نہ نگلا جارہا ہے اور نہ ہی اگلنا آسان ہے۔ عجیب مشکل میں جان پھنس کر رہ گئی ہے۔اچھا سیاست دان وہ ہوتا ہے جو اپنے عوام کے مزاج کو سمجھتا ہے۔ہٹلر کی سوچ 1914سے1939 کے عالمی حالات کا رد عمل تھی۔جرمنی پر بزور بندوق مسلط کردہ معاہدہ ہٹلر کے خیال میں یک طرفہ ہونے کے سبب اس قابل نہیں تھا کہ اسے باوقار معاہدہ کہہ سکیں۔اس نے عالمی ظلم کے خلاف علم بغاوت بلند کیا،جرمن قوم نے ہٹلر کی سوچ کو پذیرائی بخشی، اور نازی سوچ کو ظالموں سے ٹکر لے کر اپنا حق چھیننے کی تحریک سمجھی جانے لگی۔ لیکن حد سے بڑھتی ہوئی قوم پرستی انجام کا رتنگ نظری کے محدود دائرے میں سکڑ جاتی ہے۔انہی دنوں روس میں آنے والا انقلاب ”دنیا کے مزدورو،ایک ہو جاؤ!“جیسے عالمی ویژن کے ساتھ تھا، ہٹلر نے اپنی نازی سوچ کے زیر اثر روس سے کئے گئے معاہدہ کی پاسداری نہیں کی، یہ فیصلہ اسے مہنگا پڑا، روس پر حملہ نہ کرتاتو شاید تاریخ مختلف ہوتی۔
علامہ عنایت اللہ مشرقی نے بھی ہٹلر کی عسکری سوچ سے متأثر ہو کر خاکی وردی میں ملبوس خاکسار پارٹی منظم کی جو کندھے پر بیلچہ اٹھائے مارچ کرتی تھی۔انگریزوں کے فائرنگ اسکواڈ کی تاب نہ لا سکی،لاشیں گرتے ہی اپنا وجود کھو بیٹھی۔ہٹلر بھی اپنی نازی سوچ کے ساتھ 1945میں پراسرار طور پر غائب ہوگیا،قبر کا نشان بھی نہیں ملتا۔حیرت ہے کہ نریندر مودی اس کی سوچ کو سینے میں دبائے مہاتما گاندھی اور کانگریس کے ملک بھارت میں کیسے دوسری بار وزیر اعظم بن گئے؟اور بھارت کو مذہبی نفرت اورتعصب کے شعلوں میں جھونک دیا۔واضح رہے کسانوں کی تحریک اپنی معاشی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس کا مؤقف اپنے بچوں کی بقاء ہے۔جب عوام اپنے بچوں کی بقاء کے لئے احتجاج پر سڑکوں پر نکل آئیں تو کوئی بھی حکومت گولی کی طاقت سے انہیں واپس گھروں میں نہیں بھیج سکتی۔ لال قلعے پرلہراتا جھنڈا اس کا ثبوت ہے۔بھارت پاکستان کا مشرقی اور پانچ گنا بڑاہمسایہ ہے۔ وہاں امن و امان کی صورت حال پراگندہ ہو تو اس کے منفی ثرات پاکستان پرمرتب ہونا فطری امر ہے۔بھارتی وزیر اعظم آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک کے سربراہ ہیں،بڑا بن کر سوچیں، اپنے ملک کو حالت جنگ سے نکالیں۔آج کی دنیا میں کوئی مذہب اپنی عددی یا عسکری قوت کے بل پر کسی دوسرے مذہب کو صفحہئ ہستی سے نہیں مٹا سکتا۔کروڑوں پر مشتمل تمام اقلیتوں کو کیمپوں میں قید کرنا انتہائی احمقانہ تصور ہے۔ غلط سوچ کے ساتھ دیر تک حکمرانی ممکن نہیں۔گوروں کی برتری کا تصور ڈونلڈ ٹرمپ کو مواخذے تک لے گیا ہے۔اب بھی وقت ہے، ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ غلطیوں کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔یاد رہے حالات کے تیور بتا رہے ہیں کہ بھارتی ریاست کو شدید نقصان پہنچے گا۔سکھ کسانوں کو مزید اشتعال نہ دلایا جائے، معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے۔انکی جائز شکایات دور کی جائیں،64دن سے جاری احتجاج کو مزیدطوالت نہ دی جائے۔ان کی خون پسینے کی کمائی بندوق کے زور پر خریدنے کی ضد نہ کریں،انہیں اوپن منڈی کی سہولت ملنی چاہیے۔آپ کی منظور نظر کمپنیاں اوپن مارکیٹ سے خریداری کریں۔سکھ یہی چاہتے ہیں، اور ان کا مطالبہ نہ صرف ان کا حق ہے۔ تجارتی اصولوں کے عین مطابق اور آئینی ہے۔