آج کیا ہوگا؟
آج سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب ہوگا۔امیدواروں کا تعلق حکومت اور پی ڈی ایم سے ہے۔حکومت کے پاس 47ووٹ ہیں جبکہ پی ڈی ایم سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد 52 ہے۔ ایک سینیٹر کا تعلق نون لیگ سے ہے اور وہ آج کل اپنی مرضی سے لندن میں مقیم ہیں۔نیب کو بعض مقدمات میں مطلوب ہیں،کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم کے خصوصی طیارے میں سوار ہوکرلندن پہنچے تھے۔ووٹ ڈالنے پاکستان نہ آنے کا فیصلہ ان کا اپناہے۔آجاتے تو پی ڈی ایم کا ایک ووٹ بڑھ جاتا۔ عام حسابی قائدے سے حکومتی امیدوار کو شکست کا سامنا کرناچاہیئے،لیکن یاد رہے یہ سینیٹ کا الیکشن ہے،یہاں عام حسابی فارمولہ استعمال نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن عام حسابی گنتی کا پابند نہیں،اسے آئین کے مطابق سینیٹ کے انتخابات کرانا ہوتے ہیں۔آئین کہتا ہے کہ سینیٹرز کاانتخاب خفیہ بیلٹنگ کے ذریعہ ہوگا۔یہ بھی یاد رہے کہ یہ آئینی پابندی صرف سینیٹرزاورسینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات کے لئے ہے۔ وزیراعظم کا عہدہ اور اختیارات سینیٹرز، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سے کہیں زیادہ ہیں،مگر وہ صرف اوپن ووٹنگ کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے، سیکرٹ بیلٹنگ کی شرط وزیراعظم کے لئے نہیں۔سپریم کورٹ بھی اس آئینی شق کے سامنے بے بس ہے۔ طویل سماعت کے بعد الیکشن کمیشن کو corrupt practicesروکنے کی قانونی اور آئینی ذمہ داری پوری کرنے کی ہدایت کے ساتھ مقدمہ نمٹا دیا۔6مارچ کوعام آدمی نے ٹی وی چینلز پر دیکھا کہ اراکین قومی اسمبلی نے پی ٹی آئی کی خاتون فوزیہ ارشد کو174ووٹ دیئے،وہ سینیٹر بن گئیں۔ انہی اراکین نے اپنا خفیہ بیلٹنگ کاآئینی اختیاراستعمال کیا اورعبدالحفیظ شیخ کو 164ووٹ دیئے اوروہ ہار گئے۔پی ٹی آئی کے دو امیدوار وں کو یکساں ووٹ نہیں ملے،ایوان کے دو فیصلے سامنے آئے۔ ایک کی جیتاوردوسرے کی ہار،دونوں آئینی اورقانونی ہیں۔راستہ اپوزیشن نے خود پسند کیا تھا۔ اپوزیشن اس حقیقت سے انکارنہیں کر سکتی کہ حکومت کے پاس 6مارچ کو ایوان کے 174اراکین کی حمایت فوزیہ ارشد کو ملنے والے ووٹو ں کی صورت میں موجود تھی لیکن اپوزیشن ادھردیکھنے کو تیار نہیں تھی،اس کے سامنے یوسف رضا گیلانی کی جیت ہی سب کچھ تھی۔اگر سینیٹ میں 6مارچ والا منظر دہرایا تو غالب امکان ہے کہ حکومتی امید وار جیت جائیں گے۔وزیراطلاعات شبلی فراز اگلے روز کہہ چکے ہیں:”ہم جیتنے کیلئے ہر حربہ استعمال کریں گے“۔ اس کے معنے صرف اور صرف یہی ہوتے ہیں کہ ایم ڈی ایم کے ہاتھ سے کھیل نکل گیا ہے۔ اپوزیشن اس صورت میں شور مچا سکتی تھی کہ 6مارچ کو صرف یوسف رضا گیلانی جیتے ہوتے، اوراسی روز فوزیہ رشد کو 174ووٹ نہ دیئے جاتے۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہوت ہے جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔اپوزیشن آج بھی یوسف رضا گیلانی کی جیت کو ہر لحاظ سے درست مانتی ہے۔چنانچہ اسے 12مارچ کے نتائج کوبھی ماننا ہوگا۔ چند ہفتے قبل حکومت نے پارلیمنٹ سے اوپن بیلٹ کا بل منظور کرانے کی کوشش کی،اپوزیشن نہیں مانی۔حکومت نے سپریم کورٹ سے آئین کی تشریح مانگی، اپوزیشن وہاں بھی بضد رہی کہ خفیہ بیلٹنگ کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ الیکشن کمیشن نے بھی بار بار پوچھے جانے کے باوجود خفیہ بیلٹنگ کو لازمی قرار دیا۔اب یہ ممکن نہیں کہ خفیہ بیلٹنگ صرف یوسف رضا گیلانی کی جیت کے بعد کسی آئینی ترمیم کے بغیر خود ہی غیر آئینی ہو جائے۔ اپوزیشن عدالت جائے تب بھی اس کی مشکل اس کے ساتھ عدالت جائے گی۔ اپوزیشن کی اصل پریشانی یہ ہے کہ عدالت کے روبرو ایک ہی وقت میں دو تضاد مؤقف کیسے اپنائے گی؟ سیاسی مفکر اور تجزیہ کار بھی دو کیمپوں بٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔پی ڈی ایم کے حامی ایک ہی جملہ دہراتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کی جیت کے معنے یہ ہیں کہ وزیر اعظم کے خلاف ایوان نے عدم اعتماد کا اظہار کر دیاہے،عمران خان کو اسی وقت مستعفی ہوجانا چاہیئے تھا۔اپوزیشن سے پوچھا جائے کہ فوزیہ ارشد کی جیت کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تو اپوزیشن کے حمایتی کہتے ہیں:”عدم اعتماد تو ہو چکا“۔اس رویہ میں ابہام ہے۔یہ ابہام آئینی ترمیم کے بغیر دور نہیں ہوگا۔اب سینیٹ میں 52سینیٹرز کے ساتھ اپوزیشن کو باقی ماندہ مدت گزارنی ہے۔قانون سازی کے وقت 3،4سینیٹرز کی غیر حاضری سے سینیٹ والی رکاوٹ دور ہو جایا کرے گی۔قومی اسمبلی میں حکومت کو فی الحال اکثریت حاصل ہے۔6مہینے (6ستمبر)سے پہلے اپوزیشن چاہے تب بھی عدم اعتماد کی تحریک نہیں لا سکتی۔تب تک پلوں کے نیچے سے پانی کا بہاؤ جاری رہے گا۔جون کے بجٹ میں حکومت نے3کروڑ خاندانوں کوسبسڈی دینے کا اعلان کر دیا ہے۔کھاتے پیتے لوگ ”کوئی بھوکانہ سوئے“ پروگرام کو جونام دینا چاہیں دیں، مگر خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے پاکستانی اس پروگرام کی قدر و قیمت جانتے ہیں۔بڑے شہروں میں ہوٹلوں کے سامنے بھیک مانگنے والوں کی قطاریں سمٹ جائیں گی۔پی پی پی نے 70کے انتخابات میں ”ر وٹی، کپڑااور مکان“ کا نعرہ لگا کر تقریباً تمام بڑے سیاسی برج الٹ دیئے تھے۔نون لیگ نے پرویز مشرف کو بیرون ملک بھگانے کے بعد یہ سمجھ لیاتھا کہ اب کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھے گا۔ اسی قسم کی خوش فہمی کا شکارپی پی پی کی قیادت بھی ہوچکی تھی۔سوچ کی اس تبدیلی کے منفی اثرات کا تجزیہ کرنے کی ضرورت دونوں پارٹیوں نے محسوس نہیں کی۔حالانکہ تاریخ کے اتارچڑھاؤ پر نظر رکھنے والے، دونوں پارٹیوں کی قیادت کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ دیس کا ہر بلاول مقروض ہے، اور بینظیروں کے پاؤں ننگے ہیں۔مگر مغل شہنشاہ شاہجہاں کے تعاقب میں دونوں پارٹیوں کی قیادت تاج محل تعمیر کرنے مصروف رہی۔نتیجہ ان کے سامنے ہے۔بیماریئ دل کا جتنا علاج کرتے ہیں، بیماریئ دل اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔سب تدبیریں الٹی ہو جاتی ہیں۔سیاست میں ہردم چوکس و چوکنا رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔جس نے سایہ دار درخت کے نیچے سستانے کی غلطی کی، وہ قافلے سے بچھڑ جاتا ہے۔آج دونوں پاٹیوں کوجو مسائل درپیش ہیں،ان کی اصلاح میں وقت لگے گا۔صبر، تحمل کام لینا ہوگا، درست فیصلے کرناہوں گے۔یاد رہے شب انتظارکے دوران سحر تلاش میں رہتی ہے دکھائی دے نہ دے بار بار گزرتی ہے۔


