شہباز شریف لندن روانگی

مسلم لیگ نون کے صدر،سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف عدالتی فیصلہ جاری ہونے کے بعد،عدالت میں دکھائے گئے ٹکٹ اور اپنے وکلاء کے ساتھ نہ صرف ایئر پورٹ پہنچے بلکہ جہاز میں سوار بھی ہو گئے لیکن ایف آئی اے کے افسران نے انہیں یہ کہہ کر جہاز سے اتار دیا کہ ان(شہباز شریف) کا نام بلیک لسٹ میں موجود ہے لہٰذا وہ بیرون ملک نہیں جا سکتے۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اتنی عجلت میں کئے گئے عدالتی فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: اتنی جلدی تو پنچائیت بھی فیصلہ نہیں سناتی،جہاز سے اتروانے کی وضاحت میں کہا: بلیک لسٹ سے نام نکلوانے کے لئے انہیں ڈی جی ایف آئی کو درخواست دینی چاہیئے تھی،اس لئے کہ بلیک لسٹ سے نام نکالنے کا اختیار ڈی جی کے پاس ہے۔ جبکہ دوسرے وزراء نے اس سفر کو رات کے اندھیرے میں ملک سے فرار قرار دیا،اس کی وجہ یہ بتائی کہ وہ اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے ضامن ہیں،جو مفرور ہیں، پہلے اپنے بھائی کو واپس لانے کی ذمہ داری پوری کریں پھرجہاں جی چاہے جائیں۔نون لیگ کے رہنماء اس واقعے کو توہین عدالت سمجھتے ہیں،انہوں نے عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔حکومت بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور مشیر احتساب شہزاد اکبر نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور شہبازشریف کے خلاف کرپشن کے مقدمات کے حوالے سے میڈیا کو آگاہ کیا۔اپنے ساتھ بعض تفصیلات بھی لائے تھے جو میڈیا پرسنز میں تقسیم کئے۔انہوں نے نون لیگ کے اس دعوے کو سختی سے مسترد کردیا کہ شہباز شریف کے خلاف کرپشن کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔ انہوں نے کہا 55والیوم میں شواہد دیکھے جاسکتے ہیں، یہ ریفرنس کے ساتھ عدالت میں جمع کرا دیئے ہیں، 10،11گواہ گواہی بھی دے چکے ہیں،جبکہ 100کے لگ بھگ گواہ ہیں جو عید بعد عدالت میں پیش ہوں گے اور گواہی دیں گے۔یہ ساری گواہی تحریری ہے، بینک ٹرانزیکشنز پر مشتمل ہے، اور شہباز شریف نے جعلی ٹی ٹیز کے ذریعے بھجی جانے والی رقوم خود خرچ کی ہیں۔ان میں خریدی گئی جائیداد اوردرآمد کردہ گاڑیوں کی ڈیوٹی بھی شامل ہے۔ نیب بھرپور تیاری کے ساتھ اپیل کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سپریم کورٹ نے ضمانت کے فیصلے کی گائیڈ لائن دی ہوئی ہیں، مقدمے کی میرٹس پر کچھ کہنے سے منع کیا گیا ہے، صرف دو وجوہات پر ضمانت دی جا سکتی ہے،اول یہ کہ مقدمے کی سماعت میں تاخیراور دوسری میڈیکل گراؤنڈ۔شہباز شریف نے کوئی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع نہیں کرائی اور مقدمے میں تاخیر والا عنصربھی ان کے مقدمے میں موجود نہیں۔بطور ضامن انہوں نے اپنی ذمہ داری نہیں پوری کی۔ اب کورونا کے باعث ملک میں لاک ڈاؤن ہے،سرکاری دفاتر17مئی کو کھلیں گے۔اس لئے جو ہوگا اس کے بعد ہی دیکھنے کو ملے گا۔لیکن جو ہوا عام آدمی کے بھی حیران کن ہے۔ شریف فیملی بھی ذہنی طور پر یقینا تیار نہیں تھی،اس کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ جہاز کا ٹکٹ فیصلے سے پہلے ہی خریدلیا تھا۔شاید اب انہیں محسوس ہوا ہوگا کہ دن بدل گئے ہیں۔ممکن ہے بعض مبصرین کو بھی شہباز شریف کا لندن کی بجائے پاکستان میں عید منانا عجیب اور غیر متوقع لگا ہو،مگر زمینی حقیقت یہی ہے۔یہ بھی یاد رہے نواز شریف کی روانگی انتہائی مختلف ماحول میں ہوئی،ان کی پلیٹ لٹس کا اتار چڑھاؤ پاکستان کی میڈیکل ہسٹری کادہلا دینے والا واقعہ تھا، عدالت خدانخواستہ کچھ ہوجانے کی صورت میں وزیر اعظم عمران خان سے زندگی کی ضمانت مانگ رہی تھی اور وزیر اعظم کہہ رہے تھے:”ضمانت تو میں اپنی زندگی کی نہیں دے سکتا،کسی دوسرے کی کیسے دوں؟“ حکومت کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔اسے احتساب کے حوالے سے بھی کچھ کرکے دکھانا ہے۔اسے یاد ہے کہ حکومت کرپشن ختم کرنے کے نعرے کی بناء پر ملی ہے۔ نوازشریف اگر لندن میں علاج کراتے،لندن میں اپنے قیام کا جواز ثابت کرتے تو ممکن تھا کہ شہباز شریف کی لندن آمدورفت جاری رہتی۔حکومتی رویئے کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ بیماری والا کارڈ استعمال ہونے کے امکانات بہت کم ہو گئے ہیں، کیسز انجام تک پہنچنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔شریف فیملی کے ساتھ بار بار کئے جانے والے نرم سلوک کی وجہ سے ٹی وی ٹاک شوز میں میزبان اور مہمان مسکراتے ہوئے پیشگوئی کرتے ہیں مریم نواز بھی لندن جانے والی ہیں۔جبکہ فواد چوہدری جواب دیتے ہیں:”قوم کے لوٹے ہوئے پیسے واپس کریں،جہاں جی چاہے جائیں“۔عام آدمی کو پی ٹی آئی کے چیئرمین نے کنٹینر پر126روز مسلسل یہی پیغام دیا کہ کرپٹ حکمرانوں نے ملک کی معیشت کو کھوکھلا کر دیا ہے، لوٹا گیا پیسہ ان سے واپس لیا جائے تو ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا۔انہیں اقتدار سنبھالے ڈھائی سال گزرگئے لیکن لوٹی ہوئی رقم واپس نہیں لے سکے۔اور پھر عام آدمی نے دیکھا کہ بڑے بھائی کی واپسی کی ضمانت دینے والے بھی ”بیماری“ کا عذر پیش کر کے عدالتی حکم پر واپسی کی کوئی تاریخ دیئے بغیرجیسا ڈاکٹرمشورہ دیں گے کی بنیاد پر جہاز میں سوار ہو گئے۔مستقبل کا حال اَللہ کو معلوم ہے،عام آدمی نجومی نہیں،تاہم بہت سارے ماہرین علم نجوم ٹی وی چینلز پر باقاعدگی سے شریف فیملی کے بارے میں زائچہ دیکھ کر کئی مہینے پہلے بتا دیتے ہیں جو بعد میں سچ ثابت ہوتا ہے۔عام آدمی اب اتنا بھی سادہ اور بھولا نہیں رہا کہ ستارہ شناسی اور قیافہ شناسی میں فرق نہ کر سکے۔جانتا ہے حکمرانوں کی حرکتوں کے نشانات لندن میں برطانوی معیشت کے کام آ رہے ہیں۔ لیکن اب اس کی ایک ہی خواہش ہے احتساب نعرے سے آگے بڑھے اور لوٹی ہوئی رقم واپس آئے۔عید کی تعطیلات ختم ہونے کے بعد شکوک و شبہات کی دھند چھٹے گی،اور یہ کام اس مرتبہ عدالتی کمرے میں ہوگا،احاطہ خاموش رہے گا۔آخر حکومت کی بھی عزت ہوتی ہے، اور بچانے کی فکر بھی لگی رہتی ہے۔نہ بچائی جائے تو عوام کے ہاتھوں رسوائی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ سیاست کارکردگی دکھانے کا تقاضہ کرے اور برسراقتدار پارٹی نہ دکھا سکے،تو عوام وہی سلوک کرتے ہیں جو ضمنی انتخابات میں دیکھا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی ایک سیاسی پارٹی کی حیثیت سے ہاتھ پاؤں تو مارے گی، اس میں کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں