بوئی گئی فصل کاٹنا پڑتی ہے

دنیا بھر میں اس اصول کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ جیسا کروگے ویسا بھروگے۔یہ اصول سیاست پر بھی صادق آتا ہے۔جمہوریت اور بادشاہت میں ماہیئتی اور کمیتی لحاظ سے بہت بڑا فرق ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ بادشاہت کی الٹی گنتی مشینوں کی ایجاد کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی، مگر اسے ایک حقیقت بننے میں کئی صدیاں لگیں۔انقلاب فرانس کا یادگاری ڈائیلاگ ملکہئ فرانس کی زبان سے اداہوا تھا جس نے محل کے گرد جمع ہونے والے مشتعل ہجوم کے بارے میں پوچھا:”یہ لوگ یہاں کیوں جمع ہیں؟“،انہیں بتایا گیا یہ روٹی نہیں مل رہی،روٹی مانگ رہے ہیں،ملکہ نے جواباً پوچھا:”روٹی دستیاب نہیں تو یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے؟“۔۔۔پاکستانی عوام بھی آہستہ آہستہ جمہوریت نما بادشاہت کے ہاتھوں روٹی سے محروم ہونے لگے تو جمہوری بادشاہوں نے بھی یہی سمجھا کہ لوگوں کو روٹی نہیں ملے گی تو کیک کھا کر گزارہ کر لیں گے ان کی بادشاہت کو کوئی خطرہ نہیں۔ایسے ماحول میں جب الیکشن سے پہلے وزارت عظمیٰ اورکابینہ کے ناموں کی پرچی جیب میں ہو اور قریبی صحافیوں کو دکھا چکے ہوں،یہ خیال ذہن کے کسی گوشے میں کیوں کر سرسرا سکتا ہے کہ وزارت عظمیٰ کا حلف کوئی دوسرا اٹھائے گا! لیکن ایسا غیر متوقع واقعہ رونماہو گیا۔اس لئے کہ گزشتہ دہائیں میں سیاسی پنڈت اور نجومی یہی کہا کرتے تھے:”جسے پیا چاہے، وہی سہاگن!“۔اقتدار سے محروم ہونے والوں نے ہمت نہ ہاری،اپنے قابل، ذہین اور مدعا بیان کرنے کی خوبی سے آراستہ ایک(یا ایک سے زائد)ترجمان یہ پوچھنے پر مامور کر دیئے کہ آپ کی عطا کردہ اس پرچی کا کیا کریں؟ جو ہم بوجوہ صحافیوں کو بھی دکھا چکے ہیں۔ جواب تو منظر عام پر نہیں آیا،لیکن آثار بتاتے ہیں کچھ دن صبر کی تلقین کی گئی ہوگی۔ممکن ہے یہ بھی کہا گیاہو کہ ناتجربہ کار ہے، اتنی بڑی حکومت سنبھالنا اور اسے کامیابی سے چلانا اس کے بس کی بات نہیں، اپنے وزن سے خود ہی نیچے گر جائے گا۔اس دوران تین سال بیت گئے۔نہ لوگوں کو ایک کروڑ نوکریاں ملیں،نہ 50لاکھ گھر بنے۔چار مرغیوں اور ایک مرغے والا مختصرساکنبہ بھی دیہی معیشت میں کوئی نکھار پیدا نہ کر سکا۔بھینسوں کے کٹے جوانی دیکھنے سے محروم رہے،ان کا توانا اور صحت بخش گوشت ملکی اور غیرملکی مارکیٹ کی زینت نہیں بن سکے۔اب تو اپوزیشن بھی ایسے وعدوں اور دعووں کو بھول گئی ہے۔اسے اپنی پریشانیوں کا سامنا ہے۔دل کو رو لوں تو جگر دیکھوں والی کیفیت ہے۔سیاسی معجزات تو اب بھی حسب ضرورت رونما ہوتے ہیں مگر ان کا فائدہ حریفوں کو پہنچتا ہے۔گل و ثمر کسی اور کی جھولی میں گرتے ہیں۔اس تناظر میں مبصرین محتاط ہیں،کوئی بڑی یا تہلکہ خیز پیش گوئی سے گریزاں ہیں۔ہلکے پھلکے اشاروں میں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں،کوئی یقینی اور دوٹوک بات زبان پر نہیں لاتے۔سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اعدادوشمار لگاتار حکومت کے حق میں پلٹا کھا گئے ہیں۔شرح نمومنفی متوقع تھی،پہلے مثبت ہوئی،پھر 4کو چھونے لگی، گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر اس کی وجہ زرعی شعبے کو قرار دیتے ہیں۔اسٹاک ایکسچینج بڑی تیز رفتاری سے 48ہزار کی نفسیاتی حد عبور کر گیا۔شیئرز کی خرید و فروخت کے متعدد ریکارڈ بھی ٹوٹے۔حکومت کے چہرے پر رونق اور لہجے میں اعتماد جھلکنے لگا۔حالانکہ اسی دوران پہلے پی ٹی آئی کے طاقتوررہنما اور وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین کے گردحکومت مخالف جذبات اور تندو تیز نعروں کے ساتھ پی ٹی آئی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز جمع ہوئے، پیشی کے مواقع پرعدالتوں میں ان کے ہمراہ جاناشروع کر دیا،پھر دبنگ لہجے میں حکومت کے سامنے مظالبات رکھے،اور بجٹ منظوری کا پیشگی خراج مانگتے دیکھے گئے۔اس کے ساتھ ہی راولپنڈی لنک روڈ اسکینڈل سامنے آیا۔وزیر اعظم کے دوسرے قریبی ساتھی زلفی بخاری مستعفی ہوئے اور پھرخاموشی سے باہر چلے گئے۔انکوائری رپورٹ ابھی سامنے نہیں آئی لیکن وزیر اعظم سمجھتے ہیں اسکینڈل بے بنیاد نہیں۔لیکن اپوزیشن اسے بھی کیش نہیں کرا سکی۔لگتا تھا اپوزیشن کے ہاتھ ہلچل کا بہت سارا سامان آگیا ہے، حکومت کو دن میں تارے دکھانے کی پوزیشن میں ہے۔پی ڈی ایم ابھی پی پی پی اور اے این پی کی علیحدگی والے صدمے سے باہر نہیں نکلی تھی کہ مریم نوازاور ان کے چچا شہباز شریف کے درمیان ”بیانیہ کس کا چلے گا“ کے سوال پر ایک تند و تیز بحث شروع ہو گئی ہے۔ نون لیگ کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ پی پی پی کو واپس لانا چاہتے ہیں تو پی ڈی ایم کے لئے کوئی دوسرا جنرل سیکرٹری بھی تلاش کر لیں۔ اس تلخ بیان بازی کی اس وقت ضرورت نہیں تھی۔بند کمرے میں کہی جانے والی باتیں برسرعام کہنا سیاسی آداب کے منافی ہیں۔سیاست میں وقت کی اہمیت کو نظرانداز کیا جائے تو نقصان ہوتا ہے۔ جو کچھ ہورہا ہے نون لیگ کے حق میں اچھا نہیں۔نون لیگ کے درمیان صرف بیانیئے کی جنگ نہیں چل رہی بات اس سے آگے تک جائے گی۔صرف پاکستان مسلم لیگ نون کو نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ شریف فیملی کی سیاسی قوت کو سیریس دھچکا لگنے کااندیشہ ہے۔ لگتا ہے اس مرتبہ دونوں بھائی ایک پیج پر نہیں ہیں،سوچ اور راہیں تبدیل ہو چکی ہیں۔ایک سابق سفارت کارکا یہ جملہ بڑا معنی خیز ہے کہ شہباز شریف تو اپنے بڑے بھائی کو اپنے والد جیسا تسلیم کرتے ہیں مگر حمزہ شہباز نے کبھی مریم نواز کو اپنی ماں جیسا سمجھنے کی بات نہیں کی۔ایسے حالات میں تند و تیز بیانات سب کچھ بہا کر لے جائیں گے۔نون لیگ میں جاری محاذ آرائی کا جلد خاتمہ ضروری ہے۔ جتنی تاخیرہوگی اتنے مسائل جنم لیں گے۔پارٹی کو بکھرنے سے بچایا جائے۔ بکھرنے کے نتائج دونوں بھائیوں کو دیر تک برداشت کرنا پڑیں گے۔ابھی وقت ہے دانشمندی سے کام لیا جائے۔ ایک بار راستے جدا ہوگئے تو واپسی کی گنجائش نہیں رہے گی۔خاندان کی اندرونی تلخیوں اور اختلافات کی شدت کا اندازہ فیملی کو ہوگا۔ابھی مریم نواز کی جانشینی کا وقت نہیں آیا،فی الوقت مسئلہ یہ ہے کہ نون لیگ کی سربراہی کون کرے گا؟نون لیگ کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہونے کی بناء پر نون لیگ کی قیادت کا حق شہباز شریف کو دیا جانا چاہیے۔وقت نے ثابت کر دیا ہے مریم نواز کو چچا کا متبادل تسلیم کرنا سینئر لیگی قیادت کے لئے قابل قبول نہیں۔ چوہدری نثار علی خان برسوں پہلے کہہ چکے ہیں۔ضد نہ کی جائے،یاد رہے جو بوئیں گے،وہی کاٹنا پڑے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں