کیا الیکشن کمیشن وزراء کے خلاف کارروائی کر سکے گا؟
الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے،اس کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنائے مگر افسوسناک حقیقت ہے کہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں بر طرح ناکام رہا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھالیکن سچائی چھپتی نہیں۔کمزور ریکارڈ والے اداروں کادفاع کوئی کرنا چاہے تب بھی نہیں کر سکتا۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر حکومت اور الیکشن کمیشن متضاد رائے رکھتے ہیں۔حکومت مشین کی حامی جبکہ کمیشن اپنے 37اعتراضات کے ساتھ سخت مخالف ہے۔وزراء نے اعتراضات سامنے آتے ہی الیکشن کمیشن پر الزامات کی بوچھاڑ کردی۔کسی نے کہا یہ اپوزیشن کا ماؤتھ پیس بن گیا ہے،چیف الیکشن کمشنر کا آفس اپوزیشن کا ہیڈ کوارٹر بنا ہوا ہے۔اگرالیکشن کمشنر کو سیاست کا شوق ہے تو استعفیٰ دے کر الیکشن لڑیں۔دوسرے نے تجویز پیش کی ایسے ادارے کو آگ لگا دینی چاہیئے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ان تلخ اور توہین آمیز بیانات کا برا منایا، اوربیانات دینے والے وزراء کو جوابدہی کیلئے نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔وزراء کا کہنا ہے:”نوٹس ملنے کے بعدتفصیلی جواب دیں گے۔ طلب کرلیا اور اجلاس نے الزقامات مسترد کر دیئے ہیں۔الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ الیکشن کمیشن اگر چاہے تو آئین کے آرٹیکل163 -آئی ون جی کے تحت وزراء کو نااہل کر سکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ وزراء نے الیکشن کمیشن کی خود مختاری پر جو حملہ کیا ہے اس کے دورس اور شدید اثرات مرتب ہوں گے۔کنور دلشاد نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلم لیگ نون کے رہنماؤں دانیال، نہال اور طلال کو آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ہی نااہل قرار دیا گیا تھا۔وزراء کاکہنا ہے کہ ابھی نوٹس جاری نہیں ہوئے، گویا معاملہ قانونی لحاظ سے شروع ہی نہیں ہوا، وزراء نے جو کہنا تھاکہہ چکے،اب گیند الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہے۔دوسرا فریق حکومت ہے اور یہ بھی آئینی ادارہ ہے۔عوام کی نظریں دونوں پر جمی ہیں،جو فریق قانونی جنگ جیتے گا اسی کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔فیصلہ شواہد کی روشنی میں عدالت کرے گی۔ نیب کا ادارہ آئینی ہونے کے باوجود سابق حکومت کے دور میں ایسے ہی طنزیہ جملوں اور عدالتی ریمارکس کی زد میں رہ چکا ہے۔لیکن اس وقت کے سربراہ نے کمال صبرو تحمل کا نظاہرہ کیااورخاموشی سے اپنی مدت پوری کرلی۔ان کے جانشین چیئرمین نیب جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال نے پرانے اختیارات استعمال کئے اور جووزراء ادارے کے چیئرمین کو دن رات پر کترنے اور ناخن تراشنے کی دھمکیا ں دیا کرتے تھے،انہیں ان کا اعمالنامہ دکھایا،جسے دیکھتے ہیں جو بیرون ملک فرار ہو سکتے تھے،بعجلت فرار ہو گئے۔ ان کی عدم موجودگی میں عدالتیں ان کی قیمتی جائیدایں اور بینک اکاؤنٹس بحقِ سرکار ضبط کرنے کا فیصلہ صادر کر رہی ہیں۔کل تک جن وزراء کی زبانیں قینچی کی طرح چلتی تھیں آج گنگ ہیں۔ عام آدمی کو توقع ہے کہ چیئرمین الیکشن کمیشن بھی آج کے زبان دراز وزراء کی زبانوں کو 32دانتوں کے درمیان رہنے پر مجبور کر دیں گے۔ان کی زبان درازی پر عدالتوں سے قرارواقعی سزادلوانے میں کامیا ب ہوں گے۔ اور اگر کسی قانونی سقم کی بناء پر الیکشن کمیشن اپنا دفاع کرنے میں ناکام رہا تو عوام دوست حلقے اس ناکامی پر د ل گرفتہ ہوں گے مگر کچھ کر نہیں سکیں گے۔غالب امکان ہے کہ جیت اسی فریق کی ہوگی جس کے دلائل میں وزن ہوگا۔ ماورائے قانون فیصلے سنانے والے ججز کے ستارے آج کل گردش میں ہیں۔لگتا ہے عدلیہ بھی اصلاحات کے عمل سے گزر رہی ہے۔ماضی میں ہونے والے بعض فیصلوں سے ناخوش ہے۔سینیئر ججز چاہتے ہیں کہ آئندہ کوئی جج اپنی ذاتی پسند و ناپسند کے مطابق فیصلہ نہ سنائے۔ہر فیصلہ قانون کے مطابق ہو، یہ کام آسان نہیں، مگر دنیا کے دیگر ممالک میں کامیابی سے کیا جا چکا ہے۔اس لئے امید کی جانی چاہیئے کہ یہاں بھی ممکن ہے، ناممکن نہیں۔جس معاشرے میں قانون کی حکمرانی پسِ پشت ڈال دی جائے اسے عالمی برادری اچھی نظر سے نہیں دیکھتی۔اس ملک کو ایف اے ٹی ایف پہلے گرے لسٹ میں ڈال دیتا ہے،اسے اپنے ملک میں جرائم کے خاتمے کے لئے مناسب قانون سازی کی ہدایت کی جاتی ہے۔پھر قوانین پر عمل کا تقاضہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان بھی مسلم لیگ نون کے آخری دنوں میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کر لیا گیا تھا۔اور بتدریج 40شرائط پوری کرنے کیلئے کہا۔ باخبر ذرائع کے مطابق پاکستان نے 39شرائط پوری کر دی ہیں، اکتوبر میں ایف اے ٹی ایف اپنا فیصلہ سنائے گا۔اب بلیک لسٹ میں جانے کا خطرہ نہیں رہا،لیکن برٹش حکومت نے گرے لسٹ میں نام ہونے کی بناء پر پاکستانی شہریوں کی آمد و رفت پر بعض پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔برطانوی پابندی سے ثابت ہوتا ہے کہ گرے لسٹ میں نام ہونیسے شہریوں کو بیرون ملک دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ ایف اے ٹی ایف کی نظر میں منی لانڈرنگ سب سے زیادہ ناپسندیدہ جرم ہے۔جبکہ پاکستان کے بااثر افراد کا مرغوب ترین جرم منی لانڈرنگ ہے۔پانامہ لیکس سے پہلے یورپی اور امریکی ریاستوں میں بھی اس جرم کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ ان دنوں طاقت ور ملکوں کوصرف دولت درکارتھی اس کے سیاہ یا سفید ہونے کی فکر نہیں تھی۔2014میں انہیں ہوش آیا کہ کالادھن اپنے ساتھ جرائم بھی لاتا ہے اورکالا دھن ان کی پارلیمنٹ میں داخل ہوتاجارہا ہے۔چنانچہ حکومتوں نے کالے دھن کی سرکوبی کافیصلہ کیا۔ سوائے پاکستان کے دیگر حکمرانوں نے حکومتی مناصب سے استعفیٰ دیا اورخاموشی سے اپنے گھر چلے گئے۔ مگر اس کے برعکس ہمارے حکمرانوں نے اسلام آباد سے لاہور تک جیٹی روڈ پرمختلف جگہ اپنے کارکنوں سے خطاب کیا اور پوچھا:۔۔۔۔”مجھے کیوں نکالا؟“۔۔۔۔سچ کہیں توانہیں وزیر اعظم ہاؤس سے عوام نے نہیں نکالا تھا،اس لئے وہ کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔مگر آج کل لندن میں مقیم دہری شہریت کے حامل پاکستانی شہری برطانوی پارلیمنٹ کے باہر منی لانڈرنگ میں ملوث سابق حکمرانوں کی برطانیہ میں موجودگی کے خلاف احتجاج کرتے دیکھے جا رہے ہیں۔اور ایسی اطلاعات بھی مل رہی ہیں کہ برطانیہ کے وزیر اعظم بھی جلد ہی کوئی اقدام کرنے کا عندیہ ظاہر کر رہے ہیں۔گویا پاکستان کے بااثر افراد اور خاندانوں کو بھی قانون کی حکمرانی تسلیم کرنی ہوگی۔مذکورہ تناظر میں آئینی اداروں کے لئے بھی من مانی کرناممکن نہیں ہوگا۔آئندہ الیکشن دھاندلی سے پاک، شفاف،منصفانہ اور آزادانہ ہوں گے۔”آر ٹی ایم“، یا”ای وی ایم“۔۔۔۔۔۔۔۔ سلیکٹیڈ حکومتیں نہیں بنائیں گی۔


