پرخطر راستے کا انتخاب اپریل 19, 2020اپریل 19, 2020 0 تبصرے آج کا اداریہآج دنیا اپنے کردہ یا ناکردہ گناہوں کی پاداش میں ایک ایسے بھنورمیں جا پہنچی ہے جس سے نکلنے کا نہ اسے تجربہ ہے اور ہی اسے کوئی راستہ دکھائی دے رہا ہے جواسے باہرنکلنے میں مدددے سکے۔بے یقینی اور بے اعتمادی نے دنیا کی مشکل دو چند کر دی ہے۔اس کا ثبوت کل تک دنیا کی سپر پاور ہونے کے دعویدارامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ہفتے اپنی انتہائی فرماں بردارعالمی تنظیم(یو این او) کے ذیلی ادارے ڈبلیو ایچ او کو امریکا میں کوروناوائرس کے ہاتھوں تکلیف دہ اور شرمناک تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اس کے فنڈز روک دیئے ہیں۔ امریکی صدر کے اس اقدام سے کرونا وائرس کی پیشقدمی نہیں رکی۔17اپریل کو بھی2ہزار سے زائد اموات ہوئی ہیں مریضوں کی تعداد7لاکھ سے بڑھنے والی ہے۔کوروناوائرس کی وجہ سے کئے گئے شٹ ڈاؤن کے خاتمہ کے لئے تین مرحلوں پر مشتمل ایک گائیڈ لائن جاری کی ہے۔اس کا مقصد امریکی معیشت کی بحالی ہے۔تمام ریاستوں سے کہا گیا ہے کہ 14روز میں کورونا وائرس کیسز میں یومیہ کی بنیادں پرکمی لائی جائے اس کے بعد کاروباری سرگرمیوں پر عائد پابندیاں کم کی جائیں گی۔امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ہم سب کچھ ایک ساتھ نہیں کھول سکتے۔ڈنمارک اور سویڈن جیسے یورپی ممالک بھی پابندیاں ختم کرنے اور کاروبار ی مراکز کھولنے کے اعلانات کرنے لگے ہیں۔ البتہ یونان نے اپنی پولیس کو ہدایت کی ہے کہ چھٹیوں کے دنوں میں لوگوں کو چرچ یا دوسرے تفریحی مقامات جانے سے روکے۔جرمنی میں بھی آئندہ ہفتے سے لاک ڈاؤن میں نرمی کی باتیں شروع ہو گئی ہیں مئی کے پہلے ہفتے سے اسکول کھلنا شروع ہو جائیں گے۔جان ہاپکنز یونیورسٹی کے تحقیقاتی ادارے کے مطابق یورپ میں اب تک کورونا وائرس کے باعث 94 ہزار اموات ہو چکی ہیں۔ اس تناظر میں اگر پاکستان کاروباری سرگرمیاں بحال کرنے کا راستہ منتخب کرتا ہے تو ہر چند کہ یہ راہ پرخطر ہے مگر اس سے فرار بھی کم نقصان دہ نہیں۔امریکا 37ہزارہلاکتوں اور 7لاکھ کورونا مریضو ں کی موجودگی (اور 2ہزار2سو ارب امریکی ڈالر امداد دینے کے باوجود) کاروباربحال کرنے کا خطرہ مول لینے پر مجبور ہے تو پاکستان اپنے 8ارب ڈالر کے ننھے منے امدادی پیکیج کے ساتھ کون سا پہاڑ سر کر لے گا؟پاکستان میں ابھی تک دیہاڑی دار مزدوری کرنے والوں کے اعداد و شمار بھی اکٹھے نہیں کئے جاسکے،ان تک گھروں میں کھانا پہنچانے کی باتیں محض نعرہ بازی ہیں۔صرف سندھ کی صوبائی حکومت سخت لاک ڈاؤن کی حامی ہے باقی تین صوبے زمینی حقائق تسلیم کر رہے ہیں۔پی پی پی کے چیئرمین کہہ رہے ہیں کہ وفاق منافع پر انسانی جانیں قربان کر رہا ہے۔دیگر سیاسی جماعتیں پی پی پی کی ہم خیال نظر نہیں آتیں۔مذہبی جماعتیں پہلے ہی لاک ڈاؤن سے علیحدگی کا اعلان کر چکی ہیں اور ایک ایک دن کی توسیع کے ساتھ انہیں مذاکرات میں مصروف رکھا جا رہا ہے۔سب کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ کوروناوائرس ایک بے قابو عالمی وباء ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں نے اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ٹاک شوز میں بڑی بڑی باتوں اوربے تکی لفاظی کے لئے یہ وقت مناسب نہیں۔11کروڑ سے زائد آبادی کو گھروں میں کھانا فراہم کرنا ایک کھلا جھوٹ ہے اسے پورا کرنا نہ کسی صوبے کے بس کی بات ہے اور نہ ہی وفاق اتنا بڑا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔کورونا ٹائیگر فورس میں ایک دوسرے سے نا آشنا،اجنبی اور مختلف سوچ کے حامل نوجوان کسی اجتماعی نظم و نسق کا مظاہرہ نہیں کر سکیں گے۔کسی مشنری جذبے کے بغیر محض ایک جیکٹ پہن کر اتنی بڑی ذمہ داری نبھانادیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔گزشتہ 4دہائیوں میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستانی عوام کو عمومی طور پر اور نوجوانوں کوبالخصوص اجتماعی فکر سے دور کیا گیا ہے۔انہیں اپنی ذات اورذاتی مفادات تک محدود کر دیا گیا ہے۔کورونا وائرس کو بھی لوگ لوٹ مار کا ایک ذریعہ بنانے کے لئے پرانے ماہر صفِ اول میں جگہ پائیں گے۔آٹا اور چینی بحران کی ابتدائی رپورٹ میں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کے بھائی سمیت ایسے نام سامنے آئے ہیں جو آج تک ہر قسم کی پوچھ گچھ سے بالا تر تھے اور 25اپریل کو متوقع فرانزک رپورٹ کے بارے میں عمران خان کو بہادری کے تمام تمغے پہنانے والے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد بھی مایوسی کا اظہار کرنے لگے ہیں،کہتے ہیں لگتا نہیں کہ رپورٹ 25اپریل کو آ سکے گی۔بڑے بجلی گھروں کی تعمیر کے پیچھے کرپشن کی ایک اور شرمناک داستان سامنے آنے کو بے چین ہے۔روزِ اول سے اپوزیشن وزیر اعظم عمران خان کواپنے دائیں بائیں کھڑے لوگوں کی طرف دیکھنے کا مشورہ دیتی رہی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کو کڑی سزائیں دی جائیں لوٹی ہوئی دولت واپس لی جائے۔اس کے بغیر کوئی ٹائیگر فورس عوام کے سامنے اپنی کارکردگی نہیں دکھا سکے گی،اس لئے کہ اس ٹائیگر فورس کی کمان کسی جہانگیر ترین، کسی خسرو بختیار کے بھائی یا کسی رزاق داؤد کے عزیز پاس ہوگی۔ان حالات میں کاروباری سرگرمیوں کو ہٹانا پرخطر فیصلہ ہے ایک بارسوچ لیجئے! Share this:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)Click to share on WhatsApp (Opens in new window)Click to print (Opens in new window)