وفاق اور سندھ حکومت ایک بار پھر آمنے سامنے

اداریہ
سب جانتے ہیں اور عملی طورلاک ڈاؤن کے اثرات برداشت بھی کر رہے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان (زبانی طور پر)کورونا وائرس سے بچاؤ کا واحد حل لاک ڈاؤن کو نہیں مانتے ہر محفل میں کہتے ہیں لاک ڈاؤن ہوگا تو دیہاڑی دار مزدور بھوک سے مر جائے گا لیکن عملی طور پر صوبہ خیبر پختونخوا، صوبہ پنجاب اور صوبہ بلوچستان میں لاک ڈاؤن سندھ سے ایک آدھ روز کے فرق سے نافذ ہے جہاں انکی پارٹی یا اتحادی جماعتوں کی حکومت قائم ہے یہ بھی سچ ہے کہ حکومتِ سندھ نے سب سے پہلے لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا فیصلہ کیا بلکہ ہر جمعے کو 12بجے سے 3بجے تک سخت لاک ڈاؤن دیکھنے میں آتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع میں بعض مساجد میں حفاظتی تدابیر کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے نماز جمعہ پڑھائی گئی بلکہ پولیس والوں کو زدوکوب بھی کیا تھا پولیس نے کار سرکار میں مداخلت اور ہنگامہ آرائی سمیت مختلف دفعات کے تحت مقدمات قائم کئے اور گرفتاریاں بھی کیں۔اسی طرح تاجر برادری نے مارکیٹ کھولنے کی کوشش کی تو ان کی دکانیں سیل کر دی گئیں جبکہ تاجر 14دن کے لئے جیل بھیج دیئے گئے۔تاحال جیل میں ہیں۔ان کی ضمانت بھی نہیں ہوسکی۔وجہ کورونا جیسی مہلک بیماری سے بچاؤ پر کوئی سمجھوتا نہ کرنا ہے۔مگر لاک ڈاؤن کے باوجود کورونا کے مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ملک بھر میں کورونا کے مریض19ہزارتک پہنچ گئے ہیں جبکہ اموات 437بتائی گئی ہیں۔حیرانگی کی بات ہے سندھ اور پنجاب کی آبادی میں نمایاں فرق ہونے کے باوجود دونوں صوبوں میں مریضوں کی تعداد 7ہزار سے کچھ اوپر ہے یعنی برابر ہے۔دوسری حیرانگی اس حوالے سے ہے کہ جیسے ہی وزیراعظم لاک ڈاؤن کے بارے میں اپنا دیرینہ مؤقف دہراتے ہیں تین صوبائی حکومتیں اس پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کرتیں مگر حکومت سندھ اور پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس پر شدید تنقید شروع کر دیتے ہیں اور جواباً پی ٹی آئی کے وزراء بھی مورچہ بند ہو جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما میاں رضاربانی نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت اور ان کے وزراء کا بنیادی مسئلہ آئین پاکستان اور رولز آف بزنس سے ناواقفیت ہے۔انہوں نے اس تأثر کو غلط قرار دیا کہ 18ویں ترمیم کورونا وائرس پر قومی پالیسی کی تشکیل میں رکاوٹ ہے۔وفاقی حکومت سیاسی تدبر سے محروم اور فیڈریشن صوبوں کے مابین اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں ناکام ہو گئی ہے آئین کے آرٹیکل153اور 154 کے تحت مشترکہ مفادات کونسل متفقہ پالیسیوں کو تشکیل دیتی ہے وفاقی حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل کو غیر فعال کیا ہوا ہے۔ موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف جدوجہد کے دوران مشترکہ مفادات کونسل کی جگہ وفاقی حکومت نے نیشنل کوارڈی نیشن کمیٹی بنا رکھی ہے اور نیشنل کمانڈٖ اینڈ کنٹرول سینٹر نامی سب کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے موجودہ کنفیوژن اسی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔وزیر اطلاعات سندھ ناصر شاہ نے سندھ میں کورونا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار وفاقی حکومت کے اس فیصلے کو قرار دیا ہے جو اس نے بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے احساس پروگرام کی امدادی رقوم کی تقسیم کے لئے کیا ہے۔ناصر شاہ کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں بائیومیٹرک احتیاطی تدبیر کے طور پر روک دیا گیا ہے۔ دوسری جانب وفاقی وزراء نے بھی سندھ حکومت پر کڑی تنقید اور تمام خرابیوں کی ذمہ داری سندھ حکومت پر ڈال دی۔عام آدمی اس قسم کے تماشوں سے بیزار دکھائی دیتا ہے اسے اپنے مسائل کا حل چاہیئے یہ دشنام طرازی ممکن ہے پی ٹی آئی اور پی پی پی کے بڑوں کی روحانی تسکین کا باعث بنتی ہو مگر یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ عام آدمی میڈیا پر فریقین کے مباحثے دیکھ کر دونوں کو برا کہتا ہے۔اب تو پی ٹی آئی کے بنیادی رکن جن کا تعلق کراچی سے ہے اور قومی اسمبلی کے رکن بھی ہیں اس وجہ سے مستعفی ہوگئے کہ دوسال میں اپنے حلقے کے عوام کا ایک بھی مسئلہ حل نہیں کرا سکے۔یہ استعفیٰ کسی الیکٹ ایبل یا اتحادی پارٹی کے رکن نے دیا ہوتا تو اسے سیاسی بلیک میلنگ کہہ کر نمٹا دیا جاتا مگر یہاں مستعفی ہونے والی شخصیت پی ٹی آئی کی بنیادی رکن ہے۔وزیراعظم عمران خان کراچی اور سندھ کے معاملات کو سرسری انداز سے دیکھنے کی بجائے سنجیدگی سے دیکھیں اور انہیں حل کرنے کا معقول راستہ نکالیں۔یہ کام باہمی گفت و شنید سے کیا جا سکتا ہے۔اب تک کر لیا جانا چاہیئے تھا۔عوامی مسائل حل نہ کئے گئے توصرف صوبائی حکومت کی کارکردگی منفی نہیں رہے گی پی ٹی آئی کی ساکھ بھی بری طرح متأثر ہوگی۔وزیر اعظم عمران خان نے کراچی سمیت سندھ کے عوام کو یقین دلایا تھا کہ ان کے تمام مسائل حل کئے جائیں گے مگر دو سال ختم ہونے کو ہیں کچھ نہیں ہو سکا۔پانی، ٹرانسپورٹ، کھیل کے میدان، پارک سب کچھ پرانا ہے، وہی ویرانی کے سائے ہرجگہ منڈلاتے نظر آتے ہیں۔یہاں ساس بہو والی روایتی لڑائی جاری ہے۔وفاق صوبے کو اور صوبہ وفاق کو طعنے دینے میں مصروف ہے۔کورونا کا مسئلہ حالیہ چند ہفتوں کی پیداوار ہے۔باقی سارے مسائل بہت پرانے ہیں۔کورونا عارضی مسئلہ ہے اسپین میں کاروباری سرگرمیاں بحال ہو رہی ہیں تو پاکستان میں بھی پرانی رونقیں لوٹ آئیں گی۔سوال سیاسی رقابتوں کے خاتمہ کا ہے جو عوامی ترقی اور خوشحالی کے راستے کی بنیادی رکاوٹ ہے۔اسے پہلی ترجیح سمجھا جائے اور سنجیدگی سے مستقل طور پردور کیا جائے تاکہ عوام کے مسائل حل ہو سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں