سیاستدانوں کے خفیہ رابطے

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کی جانب سے مسلم لیگ نون کے رہنما سابق گورنرمحمد زبیر کی آرمی چیف سے دو خفیہ ملاقاتوں اور ہونے والی گفتگو کے انکشاف کے بعد میڈیا میں تردید و تصدیق کی ایک ان دیکھی مگر ناخوشگواربحث شروع ہوگئی۔کسی سیاست دان کااپنی درخواست یا بلائے جانے پراپنے ملک کے آرمی چیف سے ملاقات کرنا معیوب بات نہیں لیکن اسے خفیہ رکھنا اور ملاقات کی غرض و غایت عوام سے چھپانااپنی جگہ ایک سوالیہ نشان ہے۔اورجب ڈی جی آئی ایس پی آر میڈیا کو بتائیں کہ ملاقات مذکورہ سیاست دان کی درخواست پر ہوئی اور انہیں جواب دیا گیا کہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے قانونی معاملات عدالتیں اور سیاسی پارلیمنٹ طے کرے گی، مسلح افواج کا ان معاملات سے کوئی سروکار نہیں تو یہ ملاقات جرم بن جاتی ہے۔علاوہ ازیں بعض معروف سیاست دانوں کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں برقع پہن کر گیٹ نمبر 4سے ملاقات کرنے جاتے ہیں یہ اطلاع سیاسی کارکنوں کے لئے تکلیف دہ ہے۔مسلم لیگ نون کے تاحیات سربراہ لندن میں علاج کی غرض سے مقیم نوازشریف نے اپنی پارٹی کے اراکین کو آرمی چیف یا کسی مجاز افسر سے خفیہ طور پر ملاقات کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔توقع کی جانی چاہیئے کہ اب یہ انکشافات اور وضاحتوں کاسلسلہ تھم جائے گا۔پاکستانی سیاست دان مارشل لاء کے نفاذ کو برا کہتے ہیں مگر فوجی حکومتوں کا حصہ بننے میں بھی پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔اپنے اس غیر جمہوری رویہ کاعذر نیب کی جانب سے قائم کردہ مقدمات بیان کیا جاتا ہے۔سیاست میں حکومت کی جانب سے مخالفین پرمقدمات قائم کرنا کوئی انوکھی بات نہیں۔عالمی شہرت یافتہ عظیم لیڈر نیلسن مینڈیلا نے نسلی امتیاز کے خلاف بہادرانہ جدوجہدکی، اپنے نظریات کی خاطر 26سال طویل قید با مشقت کاٹی اور فتح یاب ہوئے۔جسے قید و بند کی صعوبتیں ناپسند ہوں وہ سیاست کے کوچے میں قدم نہ رکھے۔این آر او کے لئے منت سماجت کسی سیاست دان کو زیب نہیں دیتی۔نواز شریف نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو خفیہ رابطوں سے روکنے کا فیصلہ کیا ہے،اس پر عمل بھی ہونا چاہیئے۔صرف اعلان کافی نہیں۔اسی قسم کا فیصلہ تمام سیاسی جماعتیں بھی کریں تاکہ ملک میں صاف ستھری سیاست کی راہ ہموار ہو سکے۔منافقت کی سیاست سے عوام کی جان چھوٹے۔ خفیہ ملاقات کرنے والے کبھی بھی عوام سے آنکھ ملاکر بات نہیں کر سکتے۔ اس لئے کہ ملاقات کا خفیہ ہونا ہی اس کے ذاتی ہونے کا بہت بڑا ثبوت ہے۔عوامی معاملات کے لئے دن کی روشنی میں سب کے سامنے ملاقات کی جاتی ہے۔ سیاست دان یاد رکھیں کہ کھانے پینے اور رہن سہن سمیت ان کی زندگی کے تمام پہلو عوام کے سامنے ہونا ضروری ہیں۔ان کی زندگی ان کے ظاہری ذرائع آمدنی سے مطابقت رکھتی ہو۔انہیں یہ کہنے کا حق حاصل نہیں کہ ”ہمارے اثاثے اگر ہماری آمدنی سے زائد ہیں تو تمہیں کیا؟“اس لئے کہ جب کسی شخص کے اثاثے اس کی ظاہری آمدنی سے بڑھنے لگیں تو اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ فاضل آمدنی غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے ورنہ اس آمدنی کو چپڑاسیوں، کلرکوں،فالودے والوں اورپاپڑ بیچنے والوں کے اکاؤنٹ میں نہ رکھاجاتا۔کک بیکس کا حق کسی سیاست دان کو نہیں دیا گیا۔قانون کا اطلاق سب پر یکساں ہوتا ہے۔قیصر و کسریٰ جیسے ٹھاٹ باٹ چیخ چیخ کر اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم غیر قانونی ذرائع آمدنی کی پیداوار ہیں۔ سینکڑوں ایکڑ اراضی کے مالکانہ حقوق کا جواز تو بتانا پڑتا ہے۔چوری اور سینہ زوری کا دورکتنا طویل کیوں نہ ہو، مختصر ہوتا ہے۔دھونس،دھاندلی، جبر اور زبردستی کا ماحول ایک دن ختم ہو جاتا ہے۔سیاست دان آج وہی کچھ کاٹ رہے ہیں جو انہوں نے اپنے ہاتھوں خود بویا تھا۔وہ مانیں یا نہ مانیں،انہوں نے عوامی وسائل کی لوٹ مار جیسے ناقابل معافی جرائم میں حصہ لیا ہے۔دولت کے انبار محدود آمدنی سے نہیں جمع کئے جاتے۔تاریخ لوٹ مار کا ایک دن حساب لیتی ہے۔درویش صفت صدر پاکستان ممنون حسین نے بہت پہلے کہہ دیا تھا:
”سارے چور پکڑے جائیں گے،کوئی آج،کوئی سال دو سال بعد پکڑا جائے گا“۔
یہ الہامی جملے ان کی زبان سے صدر پاکستان کی حیثیت سے ادا ہوئے تھے۔انہوں نے یقینا بر بنائے عہدہ ایسی دستاویزات دیکھ لی ہوں گی کہ وہ مذکورہ انکشاف کرنے پر مجبور ہوئے۔انہوں نے کبھی اپنے الفاظ واپس نہیں لئے۔ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔جیسی کرنی، ویسی بھرنی کا وقت آن پہنچا ہے۔ 11جماعتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیاست دانوں نے یہ اعتراف تو کیا ہے کہ ان سے ”غلطیاں“ سرزد ہوئی ہیں مگر انہوں نے غلطیوں کی نشاندہی نہیں کی کہ وہ کون سے فیصلوں کو غلطی مانتے ہیں۔کرپشن کی سرپرستی، فروغ اور اپنی تجوریا ں بھرنا سیاست دانوں کی سب سے بڑی غلطی تھی۔چائنا کٹنگ،مسلح گینگ اور قتل عام کی فضاء خود بخود قائم نہیں ہوئی، بیوروکریسی اسی وقت بے لگام ہوتی ہے جب سیاست دان اس کی پیٹھ تھپکتے ہیں۔تسلیم کیا جائے کہ جی ایچ کیو سے خفیہ رابطے بھی ایک شرمناک اور بھیانک غلطی تھی۔کئی دہائیوں تک جاری رہی۔ایک بیان دینے سے یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔سیاست دان جب تک جھوٹ بولنے کو ”سیاست“ کہتے رہیں گے اس وقت تک نحوست ان کا تعاقب کرتی رہے گی۔ پارلیمنٹ میں جھوٹ بولنے کی سزا دنیا کی عدالتیں دیں یا نہ دیں،تاریخ کی عدالت ضرور دیتی ہے۔ سیاست دان یاد رکھیں تاریخ کو دھوکا نہیں دے سکتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں