جاگ پنجابی جاگ

ایک بار پھر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ”جاگ پنجابی جاگ“ کا نعرہ لگایا گیا ہے۔اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری سے پنجاب کی ”بے عزتی“ہوئی ہے۔اس نعرے سے مسلم لیگ نون کی مقبولیت میں کتنا اضافہ ہوگا اس بارے میں فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے لیکن عام آدمی کی سمجھ میں یہ بات آسانی سے نہیں آئے گی کیونکہ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کا تعلق پنجاب (میانوالی)سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی ہے۔شوکت خانم کینسر اسپتال لاہور میں تعمیر کیا ہے۔ان کی رہائش زمان پارک اور بنی گالہ میں ہے۔ دونوں پنجاب میں واقع ہیں۔نمل یونیورسٹی، میانوالی(پنجاب) میں قائم کی ہے۔پنجابی بولتے ہیں۔ہر لحاظ سے ان کی اصل شناخت ایک پنجابی گھرانے کی ہے۔ انہیں انگریزی زبان میں بول چال میں نون لیگ کے پنجابیوں سے جو برتری حاصل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے جوانی کا بڑا حصہ برطانیہ میں گزارا، گریجویشن آکسفورڈ یونیورسٹی سے اورشادی بھی برطانیہ کی انگریز فیملی میں کی۔ایک پنجابی وزیر اعظم کے دورحکومت میں میاں شہباز شریف کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کیسے پنجابیوں کی بے عزتی سمجھی جا سکتی ہے جبکہ نیب کے چیئرمین جسٹس (ر)جاوید اقبال بھی پنجابی ہیں اور ان کی تقرری مسلم لیگ نون کے بانی اور تاحیات رہبر میاں محمد نواز شریف (نجیب الطرفین پنجابی)نے خود کی تھی۔اگرملک کے وزیر اعظم یا لاہور ہائی کورٹ کے معزز ججز کا تعلق کسی دوسرے صوبے سے ہوتااور وہ شہباز شریف کی گرفتاری کا حکم دیتے تو اسے بنیاد بنا کر(غلط ہی سہی)یہ کہا جا سکتا تھا کہ گرفتاری صوبائی یا لسانی تعصب کا نتیجہ ہے۔موجودہ تناظر میں ”جاگ پنجابی جاگ“ جیسے نعرے کی ٹھوس وجہ نظر نہیں آتی۔یہ گرفتاری میاں شہباز شریف نے عبوری ضمانت کی درخواست واپس لے کر رضا کارانہ طور پر خود پیش کی ہے۔عدالتی فیصلے میں دو بار اس کا تذکرہ دیکھا جا سکتا ہے۔
لگتا ہے نون لیگ کی دوسرے درجے کی قیادت بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔اسے سمجھ نہیں آرہا کہ مشکلات کے بھنور سے کیسے باہر نکلا جائے؟تقریباً پوری قیادت کو نیب نے طلب کر رکھا ہے۔ پیشیوں کی بھرمار ہے۔ ہر دوسرے دن ایک یا دوسرے رہنما کو عدالت جانے کی مجبوری لاحق ہے۔تین بار وزیر اعظم رہنے کا اعزاز رکھنے والے محمد نواز شریف علاج کی غرض سے لندن کے کسی اسپتال کی بجائے متنازعہ فلیٹ میں مقیم ہیں عدالت کی ہدایت کے مطابق اپنی تصدیق شدہ پندرہ روزہ میڈیکل رپورٹ بھی نہیں بھیج رہے۔عدالتیں انہیں ”مفرور اور اشتہاری“ قرار دے کر ان کی جائیداد بحقِ سرکار ضبط کرنے کے احکامات جاری کر رہی ہیں۔کسی ڈیل یا ڈھیل کی آس ایک ماہ قبل 7ستمبر کو اس وقت ٹوٹ گئی جب سابق گورنر سندھ اور نواز شریف کے قابل اعتماد ساتھی محمد زبیر(جو ایک سابق جنرل کے صاحبزادے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی آرمی چیف سے 38سالہ پرانی دوستی ہے)نے انہیں آگاہ کیا کہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کہتے ہیں:
”سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں طے کئے جائیں اور قانونی معاملات کے لئے عدالتوں سے رجوع کیاجائے“۔
شریف فیملی کو ایک فیصد بھی اس جواب کی توقع نہیں تھی۔اسی لئے یہ جواب ان کے اعصاب پر بجلی بن کر گرا۔نواز شریف کے لئے برسوں کی رفاقت کا آن واحد میں اس بے دردی سے ختم ہوجانا ایک المیہ سے کم نہیں۔لیکن سیاست میں ضرورتیں اور تقاضے ہر لمحے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔سب جانتے ہیں کہ روزِ اول سے ان کی طاقت کاسرچشمہ جی ایچ کیو رہا ہے۔اسی لئے وہ محمد زبیر اور دیگر رفقاء کے ذریعے بیک ڈور چینل سے کوشش کرتے رہے کہ سیاست میں وہ خود یا اپنی بیٹی مریم نواز کی شکل میں موجود رہیں۔اس کے بعد وہی کچھ ہونا تھا جو مسلم لیگ نون غصے کر سکتی تھی۔سینے کے راز اگلنے کی دھمکی سے ”جاگ پنجابی جاگ“ تک جو کچھ ہوا،اسی کا رد عمل ہے۔
جس پر گزرتی ہے اصل حالات سے وہی باخبر ہوتا ہے بزرگوں نے کہا ہے: ”قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے“ اور یہ کہاوت ایک مسلمہ حقیقت کے مترادف ہے۔جن پرتکیہ ہواگر وہی پتے شعلوں کو ہوا دینے لگیں تو پریشانی دیدنی ہوتی ہے۔نون لیگ کے بعض اراکین اسمبلی کی وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدارسے اعلانیہ ملاقاتیں اور اپنی قیادت کے ”بیانیے“سے علیحدگی کو معمولی نہیں سمجھا جاسکتا۔ان کے لگائے ہوئے سیاسی پودے کی شاخوں پراس مرتبہ کچھ ایسے کانٹے رونما ہونا شروع ہو گئے ہیں جو نون لیگ کی اعلیٰ قیادت کے لئے نئے نوکیلے زہریلے اور زیادہ تکلیف دہ ہیں۔انہیں ہر گز اس کی توقع نہیں تھی کہ ہواؤں کا رخ اس حد تک تبدیل ہو جائے گا۔جو کل اقبال بلند ہونے کی دعائیں دیتے تھے آج منہ پھیر لیں گے۔عالمی منظر بھی پرانا نہیں رہا۔ کچھ کورونا اور کچھ فیٹف نے اپنا رنگ جمالیا ہے۔کسے دوست کہیں، کسے دشمن سمجھیں والی کیفیت ہے۔مسلم لیگ نون لاہور میں اپنی طاقت کا مؤثر اور چونکا دینے والا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی۔ نون لیگی قیادت کا خیال ہے کہ جتنے ترقیاتی کام انہوں نے اپنے دور میں کرد یئے ہیں لوگ ہمیشہ یاد رکھیں گے اور پی ٹی آئی نے مہنگائی بڑھا کر عوام کو جس قدر ناراض کیا ہے یہ ناراضگی کیش کرانے کے نتیجے میں حکومت مشکل میں آجائے گی۔مگرحاضرین جلسہ مطلوبہ تعداد میں نہیں آئے،چنانچہ خواجہ سعد رفیق جیسے جذباتی کارکن ”پنجابیوں اور لاہوریوں“ کی بے رخی برداشت نہیں کر سکے اپنے قائدین کی محبت میں ان کی زبان پر وہ سب کچھ آگیا جو نارمل حالات میں کہنے کی ہمت نہ کرتے۔ یہ تنگ نظری نون لیگ کے لئے کتنی نقصان دہ ہوسکتی ہے اس اندازہ آنے والے میں ہوجائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں