انتخابی اصلاحات
وزیر اعظم عمران خان نے واضح الفاظ میں اپوزیشن کو دعوت دی ہے کہ انتخابی عمل کو صاف، شفاف،اور ہرقسم کی دھاندلی سے محفوظ بنانے کے لئے اپنی تجاویز دے بلکہ اس حوالے سے درکار آئینی ترمیم منظور کرانے میں حکومت کا ساتھ دینے کی درخواست بھی کر دی ہے، اس لئے کہ حکومت کے پاس دوتہائی اکثریت نہیں۔انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں عمومی شکایت ہے کہ بعض اراکین اسمبلی بھاری رقوم کے عوض ووٹ دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایسے افراد سینیٹر بن جاتے ہیں جن کا کسی سیاسی پارٹی سے تعلق نہیں ہوتا۔چنانچہ اب گیند اپوزیشن کے کورٹ میں ہے،دیکھیں کیا جواب دیتی ہے؟علاوہ ازیں عام انتخابات میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اس سے ہر پاکستانی واقف ہے۔اس ضمن میں اپوزیشن کاکردار حد درجہ غیر واضح اور مبہم ہے۔ایک جانب اپوزیشن 2018 کے انتخابات کو یکسر مسترد کرتی ہے اور دوسری جانب پی ڈی ایم(اور جمیعت علمائے اسلام) کے سربراہ مولانافضل الرحمٰن کے صاحبزادے اور بھائی بھی2018کے انتخابات میں جیتی ہوئی نشستوں سے مستعفی ہونے سے بھی انکاری ہیں،عام آدمی اس مخمصے میں ہے کہ ان کا دعویٰ سچا مانے یا۔۔۔۔۔۔ان کا کردار؟ مولانا نے جے یو آئی کے سربراہ کی حیثیت سے نواز شریف کے بیانیے سے اختلاف کی بناء پر اپنے سینئررہنما حافظ حسین احمد کو ان کے جماعتی عہدے سے ہٹا دیا ہے مگر خود انہوں نے پی ڈی ایم کی سربراہی نہیں چھوڑی حالانکہ پی ڈی ایم نے بھی نواز شریف کے بیانیے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ حتمی فیصلہ عام آدمی کو ہی کرنا ہے۔عام آدمی دیکھ رہا ہے کہ ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والے تا حال ذہنی انتشار کا شکار ہیں۔میثاق کی تیاری کا کام ابھی ادھورا ہے۔نئے میگناکارٹا کا مطالبہ کرنے والے باہم دست و گریباں ہیں۔
حکومت نے انتخابی اصلاحات لانے کا مشکل فیصلہ کرلیا ہے۔اپوزیشن ابھی تک ریجیکٹڈ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا حصہ ہے۔سینیٹ کے انتخابات عنقریب ہو رہے ہیں، انہیں شفاف بنایا جا سکتا ہے، اراکین اسمبلی کوووٹ فروشی سے روکنے کے لئے قانون سازی نہ کی گئی تو سینیٹ میں اپنی دو نمبری دولت کے بل پروہ لوگ بیٹھے نظر آئیں گے جن کا سیاست سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔یہ خرید و فروخت قانون سازی کے ذریعے روکی جاسکتی ہے، اگر اپوزیشن خرید و فروخت کا دروازہ بندکرنے کی خواہشمند ہے آگے بڑھے،قانون سازی میں حصہ لے اور یہ دروازہ بند کر دے۔وزیر اعظم کی جانب سے عام انتخابات کو بھی الیکٹرانک بنانے کا عندیہ دیا ہے،اس سلسلے میں اپوزیشن کو پیچھے نہیں رہنا چاہیئے۔جب دنیا بھر میں تمام مالیاتی اموراور کاروباری ذمہ داریاں انتہائی شفافیت کے ساتھ الیکٹرانک سسٹم نے سنبھال رکھی ہیں تو ووٹ دینے کا عمل یہ سسٹم کیوں نہیں سنبھال سکتا؟ اپوزیشن کو اپنا فریضہ ادا کرنے میں کسی حیلہ بازی سے کام نہیں لینا چاہیئے۔حاات یہی اشارہ دے رہے ہیں اگر اپوزیشن نے اپنا روایتی طرز عمل تبدیل نہ کیا تب بھی انتخابی اصلاحات ہو کر رہیں گی، اس لئے کہ جدید ٹیکنالوجی کا انکار آسان نہیں، نوجوان اس کی افادیت سے واقف ہیں۔آج کوئی مذہبی پیشوا جدید ٹیکنالوجی کے خلاف فتویٰ دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ کوئی آزمانا چاہے،آزما کر دیکھ لے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق چینی افواج نے جدید ٹیکنالوجی ”مائیکرو ویو“استعمال کی، ایک کلومیٹر دور کھڑے بھارتی فوجیوں کو الٹیاں لگ گئیں اور وہ شدید تکلیف کے باعث اپنی پوزیشن چھوڑکر بھاگ گئے، ان چوٹیوں پر چینی فوج نے قبضہ کرلیا۔کمپیوٹر اورواٹس ایپ آج ہماری گھریلو زندگی کاحصہ بن چکا ہے۔ کورونا وائرس نے اس عمل کو تیز کردیا ہے۔ آدھے سرکاری ملازمین اپنے گھر سے دفتری امور انجام دیتے ہیں۔ آئندہ مارچ سے حکومتی دعووں کے مطابق کمپیوٹر مدارس کے نصاب میں شامل ہوجائے گا۔ معلومات کے ذخائر مدارس میں داخل ہوجائیں گے،کوئی نہیں روک سکے گا۔
اپوزیشن انتخابی اصلاحات کے عمل سے خود کو الگ نہیں رکھ سکے گی،اسے انتخابی اصلات پسند ہوں یا نہ ہوں،اب یہ معاملہ عوام کے سامنے آ چکا ہے۔اپوزیشن کے پاس صرف ایک آپشن ہے،کہ وہ اپنی حکمرانوں والی سوچ سے نجات حاصل کرے،اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ وہ عوام سے مختلف اور بالاتر مخلوق نہیں ہے۔اب عوامی مفادات کے حوالے سے کام کرنا ہوگا، جو کام کرے گا اسے آئندہ ووٹ ملیں گے۔”پدرم سلطان بود“ کادور گزر چکا، اب جس کے پاس عوام کو کچھ دکھانے کے لئے کارکردگی ہے، اسے ووٹ ملیں گے ورنہ ڈبہ خالی ہی رہے گا۔73سالہ تاریخ عام آدمی کو زبانی یاد ہے،اس لئے کہ حکمرانوں کی منفی کارکردگی کا بوجھ عام آدمی کے کندھوں پر آیا،اور عام آدمی کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے پریس کانفرنس سے خطاب کی ضرورت نہیں، وہ جانتا ہے کہ اس کے پاس ووٹ کی طاقت موجود ہے، وقت آنے پر استعمال کرتاہے۔آزاد کشمیر،گلگت بلتستان اور دیہی آبادی کے ووٹرزاچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی گلیاں کون پکی کر سکتا ہے؟پانی اور بجلی کا مسئلہ حل کرنے میں کون سود مند ثابت ہوگا؟تھانے کچہری جانا پڑا تو کون ساتھ چلے گا؟اپوزیشن اگر واقعی انتخابی دھاندلی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ چاہتی ہے تو حکومت کے ساتھ مل کر انتخابی اصلاحات میں بھر پور دلچسپی لے،سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔فرار کی حکمت عملی نقصان دہ ثابت ہوگی۔عوامی مفادات کو پس پشت ڈالنے کی قیمت چکانی پڑے گی۔ جن پارٹیوں کی سوئی کسی وجہ سے 90کی دہائی میں اٹک گئی ہے انہیں حالات و واقعات کا از سر نو جائزہ لینا چاہیئے۔ ادھر ادھر جھانکنے کا وقت گزر چکا، پارلیمنٹ اپنا کام خود کرے، امریکی سفارت خانہ کے ٹویٹ اور استنبول کی ملاقاتیں بے ثمر رہیں گی۔ انہیں معلوم ہے اب ان کے لئے کون کارآمد ہے۔مجمع کو اپنے قریب لانے اور بٹھانے کی بات الگ ہے، اس کا ملکی سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں۔ مستقبل کی سیاست کا مرکز پارلیمنٹ ہوگی۔زمینی حقائق کوجو آج نہیں مانتے، کل مان جائیں گے۔یاد رہے؛بہتا پانی اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔


