مقتدرہ این آر اوہ دینے پر راضی،حکومت انکاری؟
بعض اوقات میڈیا اطلاعات کی صداقت پرعام آدمی کو شبہ ہونے لگتا ہے۔ایسی ہی ایک خبر یہ ہے کہ پاکستان کی مقتدرہ جو کئی دہائیوں سے اپوزیشن کی شدید تنقیدکاعمومی اور مسلم لیگ نون کا خصوصی نشانہ بنی ہوئی ہے، موجودہ اپوزیشن کواس کی پسند کا احتساب بل دینے پر راضی تھی مگر وزیر اعظم عمران خان نے مجوزہ بل دیکھ کر جواب دیاکہ ”میں اس پر دستخط کرنے کی بجائے استعفیٰ دینا بہتر سمجھوں گا“۔پہلے یہ انکشاف صرف سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کیا کرتے تھے مگر اب ان کے کٹر مخالفین بھی اس کی گواہی دینے لگے ہیں جن میں مصدق ملک اور رانا ثناء اللہ جیسے رہنما شامل ہیں۔چکوال میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران وزیر اعظم نے بھی دہرایا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مقتدرہ کس اختیار کے تحت اپنی حدود سے باہر نکل کر پارلیمنٹ کو ایسا بل منظور کرنے کے لئے کہہ رہی ہے جو قائد ایوان کی دانست میں اس قدر مضر ہے کہ وہ حکومت چھوڑنا بہتر سمجھتے ہیں۔ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپوزیشن کون سے آئینی/مذہبی/سیاسی /اخلاقی اصول کے تحت مقتدرہ کے پاس اپنی پسند کا احتساب بل منظور کرانے گئی تھی؟تیسرا سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کا مذکورہ رویہ ”این آر او“ مانگنے سے کتنا مختلف ہے؟حسب عادت اپوزیشن نے اس حوالے سے کوئی سوچ بچا رنہیں کی کہ عام آدمی کے سامنے تصویر کا یہ افسوسناک رخ جائے گاتو عام آدمی پارٹی قیادت کے بارے میں کیا سوچے گا؟پارٹی کی ساکھ پر کتنا منفی اثر پڑے گا؟ہمارے سیاسی رہنما اپنے اس رویہ کی کیسے وضاحت کریں گے؟عام آدمی کو کیسے سمجھائیں گے کہ عام آدمی سے چھپ کر ان کا مقتدرہ سے اپنی پسند کا احتساب بل منظور کرانا پارلیمنٹ کی توہین کے مترادف عمل نہیں؟اگر مخالف پارٹی کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے مقتدرہ کی منت سماجت کی جائے تو جائزاور جمہوریت دوستی، اور مقتدرہ نہ مانے تو آمریت ا پسنداور جمہوریت دشمن؟دوسری طرف مقتدرہ کو بھی جواب دینا چاہیئے کہ حکومت کو اس کی پالیسی پر عملدرآمد کے لئے فری ہینڈ کیوں نہیں دیا جاتا؟حاضر وزیر اعظم کو عوام کے سامنے بار بار کیوں کہنا پڑا کہ وہ نوازشریف کی لندن روانگی جیسا دھبہ دوبارہ اپنے دامن پر لگانے کی اجازت نہیں دیں گے؟اس شکایت میں یہ اعتراف بھی شامل ہے کہ وزیر اعظم بیماری والے ڈرامے کے ذمہ داروں تک پہنچ گئے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ وہ ان کا کچھ بگاڑنے کی پوزیشن میں نہیں۔استعفیٰ دینا بہتر اسی وقت سمجھا جا سکتا ہے جب کرایا جانے والا کام استعفے کے مقابلے میں گھٹیا اور زیاد ناپسندیدہ ہو۔اور یہ منظر اس وقت مزید ڈراؤنا اور بھیانک ہوجاتا ہے جب وزیر اعظم اس کام کو ملک اورعوام کے ساتھ غداری کہتا ہو، اوراس کی بدنما مثال وزیر اعظم ایک سے زائد بار جنرل پرویز مشرف کی جانب سے دیا جانے والے رسوائے زمانہ N.R.O. قرار دیتا ہو۔ مقتدرہ کو ماضی میں دیئے گئے این آر اوز کے نقصانات کو فرموش نہیں کرنا چاہیئے۔نواز شریف نے لندن پہنچ کر جو کچھ کیا وہ این آر او کے منہ پر طمانچہ نہیں؟اور اگر مقتدرہ کسی وجہ سے اس فیصلے کو درست تسلیم کرتی ہے تو اس کے فوائد سے قوم کو آگاہ کیاجائے، اس لئے کہ اس فیصلے سے فائدہ اٹھا کر بڑی تعداد میں قاتلوں سمیت دیگر مجرم جیلوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ جسے شبہ ہو جیلوں سے رہائی پانے والوں کا ریکارڈ دیکھ لے۔اس وقت ایک جنرل حکمران تھا جو ملک کے سیاہ سفید کا بلا شرکت غیرے مالک تھا۔اور موجودہ اپوزیشن اکثر و بیشتر حکومت کو یہ طعنہ دیتی رہتی ہے کہ جبN.R.O. دینے کا اختیار نہیں تو تمہارے پاس مانگنے کوئی کیوں آئے گا؟ان کے اس طعنے سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہN.R.O. کے خواہشمند صحیح دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے اس دعوے میں بھی صداقت جھلکتی ہے کہ انہوں نے ماضی میں جو دھرنا دیا تھا وہ بھی مقتدرہ کے کہنے پر دیا تھا اور آج کل بھی جو کچھ کر رہے ہیں وہ بھی مقتدرہ کی سرپرستی میں کیا جا رہا ہے۔گزشتہ دھرنے میں نوازشریف جیل سے لندن پہنچ گئے تھے،اس مرتبہ ان کی صاحبزادی لندن جا سکتی ہیں۔واضح رہے ٹریک ٹو مذاکرات کے اشارے بھی مقتدرہ کی جانب جاتے ہیں۔حکومت سازی کے عمل میں مقتدرہ اگر اپنی تسلی کے لئے کوئی کردار چاہتی ہے تو اس کے خدو خال کو پارلیمنٹ کے ذریعے قانونی شکل دلوائی جا سکتی ہے، ویسے بھی پارلیمنٹ کے انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کے ماضی سے ایجنسیاں پہلے ہی باخبر ہوتی ہیں۔ انتخابی عمل کو شفاف بنایا جائے، توآپس کی بد اعتمادی ختم ہو سکتی ہے۔مقتدرہ چھپ کر N.R.O. لینے والوں کی سہولت کار بنے گی تو یہ عمل نت نئی شکایات کو جنم دیتا رہے گا۔اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔ابکوئی فریق ماضی والی غلطیوں پر اصرار نہ کرے۔عوام کے ووٹوں سے حکومت سازی اس لئے نہیں کی جاتی کہ منتخب حکومت کو بیماری یا جعلی دھرنوں کی مدد سے وہ کام کرنے پر مجبور کیا جائے جس کی اونر شپ لینے والا پاکستان میں نہ ملے۔بدنامی کے دھبوں سے عدلیہ بھی محفوظ نہ رہ سکے۔حکومت نے N.R.O. کی دستاویز پر دستخط کرنے سے انکار کردیا، بہت اچھا کیا، ورنہ پس دیوار ہونے والی منصوبہ بندی عام آدمی تک نہ پہنچتی۔سب اس عوام دشمن اقدام کو ملک اور عوام کے لئے مفید سمجھنے کی غلط فہمی کا شکار ہوجاتے۔وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اب زیادہ باخبر محکمے کے انچارج وزیر ہیں، زندگی کی آخری وزارت میں وہ یقینا اپنے لئے کوئی سیاسی بدنامی نہیں پسند کریں گے۔وہ ایک کتاب لکھنے کا عندیہ دے چکے ہیں، توقع کی جانی چاہیئے کہ وہ عام آدمی کی سیاسی تربیت اور نوجوانوں کی رہنمائی کے لئے N.R.O. کے حوالے سے ایک باب اس میں ضرور شامل کریں گے۔جی ایچ کیو ان کے حلقہئ انتخاب میں واقع ہے،بہت سے رازوں سے پہلے ہی واقف ہیں، ان کے اقتدار کے دنوں میں جو مقتدرہ کے N.R.O. پر راضی ہونے اورحکومت کے انکاری ہونے کا منظر نامہ اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ 2018سے2020کے درمیان ہونے والی چہل پہل کے اوقات اوردودھوں سے نہائی شخصیات کی شناخت کے سا تھ پیش کرنا ایک اہم خدمت تسلیم کی جائے گی۔اسی کو ٹروتھ فائنڈنگ کہتے ہیں۔ سچائی دیرتک چھپانا ممکن نہیں۔ جھوٹ کا انجام ذلت اور رسوائی ہوتا ہے۔چاہے بولنے والا کتنے ہی نفیس لباس میں ملبوس ہو۔